‌صحيح البخاري - حدیث 258

كِتَابُ الغُسْلِ بَابُ مَنْ بَدَأَ بِالحِلاَبِ أَوِ الطِّيبِ عِنْدَ الغُسْلِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ حَنْظَلَةَ، عَنِ القَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ [ص:61]: كَانَ النَّبِيُّ صلّى الله عليه وسلم «إِذَا اغْتَسَلَ مِنَ الجَنَابَةِ، دَعَا بِشَيْءٍ نَحْوَ الحِلاَبِ، فَأَخَذَ بِكَفِّهِ، فَبَدَأَ بِشِقِّ رَأْسِهِ الأَيْمَنِ، ثُمَّ الأَيْسَرِ، فَقَالَ بِهِمَا عَلَى وَسَطِ رَأْسِهِ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 258

کتاب: غسل کے احکام و مسائل باب: حلاب یا خوشبو لگا کر غسل کرنا محمد بن مثنیٰ نے ہم سے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعاصم ( ضحاک بن مخلد ) نے بیان کیا، وہ حنظلہ بن ابی سفیان سے، وہ قاسم بن محمد سے، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے۔ آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل جنابت کرنا چاہتے تو حلاب کی طرح ایک چیز منگاتے۔ پھر ( پانی کا چلو ) اپنے ہاتھ میں لیتے اور سر کے داہنے حصے سے غسل کی ابتدا کرتے۔ پھر بائیں حصہ کا غسل کرتے۔ پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو سر کے بیچ میں لگاتے تھے۔
تشریح : حلاب کے متعلق مجمع البحار میں ہے : الحلاب بکسر مہملۃ وخفۃ لام اناءیسع قدرحلب ناقۃ ای کان یبتدی بطلب ظرف و بطلب طیب اواراد بہ اناءالطیب یعنی بدا تارۃ بطلب ظرف و تارۃ بطلب نفس الطیب وروی بشدۃ لام وجیم وہو خطائ۔ ( مجمع البحار ) یعنی حلاب ایک برتن ہوتا تھا جس میں ایک اونٹنی کا دودھ سماسکے۔ آ پ وہ برتن پانی سے پر کرکے منگاتے اور اس سے غسل فرماتے یا اس سے خوشبو رکھنے کا برتن مراد لیا ہے۔ یعنی کبھی محض آپ برتن منگاتے کبھی محض خوشبو۔ ترجمہ باب کا مطلب یہ ہے کہ خواہ غسل پہلے پانی سے شروع کرے جو حلاب جیسے برتن میں بھرا ہوا ہو پھرغسل کے بعد خوشبو لگائے یا پہلے خوشبو لگاکر بعدمیں نہائے۔ یہاں باب کی حدیث سے پہلا مطلب ثابت کیا اور دوسرے مطلب کے لیے وہ حدیث ہے جو آگے آرہی ہے۔ جس میں ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشبو لگانے کے بعد اپنی بیویوں سے صحبت کی اور صحبت کے بعد غسل ہوتا ہے توغسل سے قبل خوشبو لگانا ثابت ہوا۔ شاہ ولی اللہ مرحوم نے فرمایا ہے کہ حلاب سے مراد بیجوں کا ایک شیرہ ہے جو عرب لوگ غسل سے پہلے لگایا کرتے تھے۔ جیسے آج کل صابون یابٹنہ یا تیل اور بیسن ملاکر لگاتے ہیں پھر نہایا کرتے ہیں۔ بعضوں نے اس لفظ کو جیم کے ساتھ جلاب پڑھا ہے اور اسے گلاب کا معرب قراردیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ حلاب کے متعلق مجمع البحار میں ہے : الحلاب بکسر مہملۃ وخفۃ لام اناءیسع قدرحلب ناقۃ ای کان یبتدی بطلب ظرف و بطلب طیب اواراد بہ اناءالطیب یعنی بدا تارۃ بطلب ظرف و تارۃ بطلب نفس الطیب وروی بشدۃ لام وجیم وہو خطائ۔ ( مجمع البحار ) یعنی حلاب ایک برتن ہوتا تھا جس میں ایک اونٹنی کا دودھ سماسکے۔ آ پ وہ برتن پانی سے پر کرکے منگاتے اور اس سے غسل فرماتے یا اس سے خوشبو رکھنے کا برتن مراد لیا ہے۔ یعنی کبھی محض آپ برتن منگاتے کبھی محض خوشبو۔ ترجمہ باب کا مطلب یہ ہے کہ خواہ غسل پہلے پانی سے شروع کرے جو حلاب جیسے برتن میں بھرا ہوا ہو پھرغسل کے بعد خوشبو لگائے یا پہلے خوشبو لگاکر بعدمیں نہائے۔ یہاں باب کی حدیث سے پہلا مطلب ثابت کیا اور دوسرے مطلب کے لیے وہ حدیث ہے جو آگے آرہی ہے۔ جس میں ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشبو لگانے کے بعد اپنی بیویوں سے صحبت کی اور صحبت کے بعد غسل ہوتا ہے توغسل سے قبل خوشبو لگانا ثابت ہوا۔ شاہ ولی اللہ مرحوم نے فرمایا ہے کہ حلاب سے مراد بیجوں کا ایک شیرہ ہے جو عرب لوگ غسل سے پہلے لگایا کرتے تھے۔ جیسے آج کل صابون یابٹنہ یا تیل اور بیسن ملاکر لگاتے ہیں پھر نہایا کرتے ہیں۔ بعضوں نے اس لفظ کو جیم کے ساتھ جلاب پڑھا ہے اور اسے گلاب کا معرب قراردیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔