كِتَابُ الهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا بَابُ قَبُولِ الهَدِيَّةِ صحيح حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ إِيَاسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «أَهْدَتْ أُمُّ حُفَيْدٍ خَالَةُ ابْنِ عَبَّاسٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقِطًا وَسَمْنًا وَأَضُبًّا، فَأَكَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الأَقِطِ وَالسَّمْنِ، وَتَرَكَ الضَّبَّ تَقَذُّرًا»، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «فَأُكِلَ عَلَى مَائِدَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَوْ كَانَ حَرَامًا مَا أُكِلَ عَلَى مَائِدَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»
کتاب: ہبہ کے مسائل، فضیلت اور ترغیب کا بیان
باب : ہدیہ کا قبول کرنا
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جعفر بن ایاس نے بیان کیا، کہا کہ میں نے سعید بن جبیر سے سنا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ان کی خالہ ام حفید رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پنیر، گھی اور گوہ ( ساہنہ ) کے تحائف بھیجے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پنیر اور گھی میں سے تو تناول فرمایا لیکن گوہ پسند نہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ دی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ( اسی ) دسترخوان پر ( گوہ ( ساہنہ ) کو بھی کھایاگیا اور اگروہ حرام ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر کیوں کھائی جاتی۔
تشریح :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گوہ ( ساہنہ ) کا ہدیہ قبول تو فرمالیا، مگر خود نہیں کھایا، کیوں کہ آپ کو یہ مرغوب نہ تھا۔ ہاں آپ کے دسترخوان پر اسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے کھایا جو اس کے حلال ہونے کی دلیل ہے مگر طبعی کراہیت سے کوئی اسے نہ کھائے تو وہ گنہگار نہ ہوگا، ہاں اسے حرام کہنا غلط ہے۔
المحدث الکبیر حضرت الاستاذ مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وذکر ابن خالویہ ان الضب یعیش سبع مائۃ سنۃ وانہ لایشرب الماءویبول فی کل اربعین یوما قطرۃ ولا یسقط لہ سن و یقال بل اسنانہ قطعۃ واحدۃ و حکی غیرہ ان اکل لحمہ ےذہب العطش یعنی ابن خالویہ نے ذکر کیا ہے کہ گوہ ( ساہنہ ) سات سو سال تک زندہ رہتی ہے اور وہ پانی نہیں پیتی اور چالیس دن میں صرف ایک قطرہ پیشاب کرتی ہے اور اس کے دانت نہیں گرتے بلکہ کہا جاتا ہے کہ اس کے دانت ایک ہی قطعہ کی شکل میںہوتے ہیں اور بعض کا ایسا بھی کہنا ہے کہ اس کا گوشت پیاس بجھادیتا ہے۔
آگے حضرت مولانا فرماتے ہیں: وقال النووی اجمع المسلمون علی ان الضب حلال لیس بمکروہ یعنی مسلمانوں کا اجماع ہے کہ گوہ ( ساہنہ ) حلال ہے مکروہ نہیں ہے۔ مگر حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اصحاب اسے مکروہ کہتے ہیں۔ ان حضرات کا یہ قول نصوص صریحہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل تسلیم ہے۔ ترمذی کی روایت عن ابن عمر میں صاف موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لااکلہ ولا احرمہ نہ میں اسے کھاتا ہوں نہ حرام قرار دیتا ہوں۔ اس حدیث کے ذیل حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ وقد اختلف اہل العلم فی اکل الضب فرخص فیہ بعض اہل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم و غیرہم وکرہہ بعضہم و یروی عن ابن عباس انہ قال اکل الضب علی مائدۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وانما ترکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تقذرا یعنی گوہ ( ساہنہ ) کے بارے میں اہل علم نے اختلاف کیا ہے۔ پس اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے بعض نے اس کے لیے رخصت دی ہے اور ان کے علاوہ دوسرے اہل علم نے بھی اور بعض نے اسے مکروہ کہا ہے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر گوہ ( ساہنہ ) کا گوشت کھایاگیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طبعی کراہیت کی بنا پر نہیں کھایا۔
حضرت مولانا مبارک پوری فرماتے ہیں: وہو قول الجمہور وہو الراجح المعمول علیہ یعنی جمہور کا قول حلت ہی کے لیے ہے اور یہی قول راجح ہے جس پر فتویٰ دیاگیا ہے اور اس مسلک پر حضرت مولانا مرحوم نے آٹھ احادیث و آثار نقل فرمائے ہیں اور مکروہ کہنے والوں کے دلائل پر بطریق احسن تبصرہ فرمایا ہے۔ تفصیل کے لیے تحفۃ الاحوذی جلد: 3ص: 73,74 کا مطالعہ کیا جانا ضروری ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گوہ ( ساہنہ ) کا ہدیہ قبول تو فرمالیا، مگر خود نہیں کھایا، کیوں کہ آپ کو یہ مرغوب نہ تھا۔ ہاں آپ کے دسترخوان پر اسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے کھایا جو اس کے حلال ہونے کی دلیل ہے مگر طبعی کراہیت سے کوئی اسے نہ کھائے تو وہ گنہگار نہ ہوگا، ہاں اسے حرام کہنا غلط ہے۔
المحدث الکبیر حضرت الاستاذ مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وذکر ابن خالویہ ان الضب یعیش سبع مائۃ سنۃ وانہ لایشرب الماءویبول فی کل اربعین یوما قطرۃ ولا یسقط لہ سن و یقال بل اسنانہ قطعۃ واحدۃ و حکی غیرہ ان اکل لحمہ ےذہب العطش یعنی ابن خالویہ نے ذکر کیا ہے کہ گوہ ( ساہنہ ) سات سو سال تک زندہ رہتی ہے اور وہ پانی نہیں پیتی اور چالیس دن میں صرف ایک قطرہ پیشاب کرتی ہے اور اس کے دانت نہیں گرتے بلکہ کہا جاتا ہے کہ اس کے دانت ایک ہی قطعہ کی شکل میںہوتے ہیں اور بعض کا ایسا بھی کہنا ہے کہ اس کا گوشت پیاس بجھادیتا ہے۔
آگے حضرت مولانا فرماتے ہیں: وقال النووی اجمع المسلمون علی ان الضب حلال لیس بمکروہ یعنی مسلمانوں کا اجماع ہے کہ گوہ ( ساہنہ ) حلال ہے مکروہ نہیں ہے۔ مگر حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اصحاب اسے مکروہ کہتے ہیں۔ ان حضرات کا یہ قول نصوص صریحہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل تسلیم ہے۔ ترمذی کی روایت عن ابن عمر میں صاف موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لااکلہ ولا احرمہ نہ میں اسے کھاتا ہوں نہ حرام قرار دیتا ہوں۔ اس حدیث کے ذیل حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ وقد اختلف اہل العلم فی اکل الضب فرخص فیہ بعض اہل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم و غیرہم وکرہہ بعضہم و یروی عن ابن عباس انہ قال اکل الضب علی مائدۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وانما ترکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تقذرا یعنی گوہ ( ساہنہ ) کے بارے میں اہل علم نے اختلاف کیا ہے۔ پس اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے بعض نے اس کے لیے رخصت دی ہے اور ان کے علاوہ دوسرے اہل علم نے بھی اور بعض نے اسے مکروہ کہا ہے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر گوہ ( ساہنہ ) کا گوشت کھایاگیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طبعی کراہیت کی بنا پر نہیں کھایا۔
حضرت مولانا مبارک پوری فرماتے ہیں: وہو قول الجمہور وہو الراجح المعمول علیہ یعنی جمہور کا قول حلت ہی کے لیے ہے اور یہی قول راجح ہے جس پر فتویٰ دیاگیا ہے اور اس مسلک پر حضرت مولانا مرحوم نے آٹھ احادیث و آثار نقل فرمائے ہیں اور مکروہ کہنے والوں کے دلائل پر بطریق احسن تبصرہ فرمایا ہے۔ تفصیل کے لیے تحفۃ الاحوذی جلد: 3ص: 73,74 کا مطالعہ کیا جانا ضروری ہے۔