‌صحيح البخاري - حدیث 2569

كِتَابُ الهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا بَابُ مَنِ اسْتَوْهَبَ مِنْ أَصْحَابِهِ شَيْئًا صحيح حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَ إِلَى امْرَأَةٍ مِنَ المُهَاجِرِينَ، وَكَانَ لَهَا غُلاَمٌ نَجَّارٌ، قَالَ لَهَا: «مُرِي عَبْدَكِ فَلْيَعْمَلْ لَنَا أَعْوَادَ المِنْبَرِ»، فَأَمَرَتْ عَبْدَهَا، فَذَهَبَ فَقَطَعَ مِنَ الطَّرْفَاءِ، فَصَنَعَ لَهُ مِنْبَرًا، فَلَمَّا قَضَاهُ، أَرْسَلَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ قَدْ قَضَاهُ، قَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَرْسِلِي بِهِ إِلَيَّ»، فَجَاءُوا بِهِ، فَاحْتَمَلَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَضَعَهُ حَيْثُ تَرَوْنَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2569

کتاب: ہبہ کے مسائل، فضیلت اور ترغیب کا بیان باب : جو شخص اپنے دوستوں سے کوئی چیز بطور تحفہ مانگے ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان، کہا ہم سے ابوغسان محمد بن مطرف نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہاجرہ عورت کے پاس ( اپنا آدمی ) بھیجا۔ ان کا ایک غلام بڑھئی تھا۔ ان سے آپ نے فرمایا کہ اپنے غلام سے ہمارے لیے لکڑیوں کا ایک منبربنانے کے لیے کہیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے غلام سے کہا۔ وہ غابہ سے جاکر جھاو کاٹ لایا اور اسی کا ایک منبر بنادیا۔ جب وہ منبر بناچکے تو اس عورت نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کہلا بھیجا کہ منبر بن کر تیار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہلوایا کہ اسے میرے پاس بھجوادیں۔ جب لوگ اسے لائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اسے اٹھایا اور جہاں تم اب دیکھ رہے ہو۔ وہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رکھا۔
تشریح : رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور ہدیہ خود ایک انصاری عورت سے فرمائش کی کہ وہ اپنے بڑھئی غلام سے ایک منبر بنوادیں۔ چنانچہ تعمیل کی گئی اور غابہ کے جھاؤ کی لکڑیوں سے منبر تیار کرکے پیش کردیاگیا۔ جب یہ پہلے دن استعمال کیاگیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کھجور کے تنے کا سہارا چھوڑدیا جس پر آپ ٹیک دے کر کھڑے ہوا کرتے تھے۔ یہی تنا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کے غم میں سبک سبک کر ( سسک سسک کر ) رونے لگا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا تب وہ خاموش ہوا۔ مہاجر کا لفظ ابوغسان راوی کا وہم ہے۔ اور صحیح یہ ہے کہ یہ عورت انصاری تھی۔ اس سے لکڑی کا منبر سنت ہونا ثابت ہوا جو بیشتر اہل حدیث مساجد میں دیکھا جاسکتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور ہدیہ خود ایک انصاری عورت سے فرمائش کی کہ وہ اپنے بڑھئی غلام سے ایک منبر بنوادیں۔ چنانچہ تعمیل کی گئی اور غابہ کے جھاؤ کی لکڑیوں سے منبر تیار کرکے پیش کردیاگیا۔ جب یہ پہلے دن استعمال کیاگیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کھجور کے تنے کا سہارا چھوڑدیا جس پر آپ ٹیک دے کر کھڑے ہوا کرتے تھے۔ یہی تنا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کے غم میں سبک سبک کر ( سسک سسک کر ) رونے لگا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا تب وہ خاموش ہوا۔ مہاجر کا لفظ ابوغسان راوی کا وہم ہے۔ اور صحیح یہ ہے کہ یہ عورت انصاری تھی۔ اس سے لکڑی کا منبر سنت ہونا ثابت ہوا جو بیشتر اہل حدیث مساجد میں دیکھا جاسکتا ہے۔