کِتَابُ المُكَاتِبِ بَابُ المُكَاتِبِ، وَنُجُومِهِ فِي كُلِّ سَنَةٍ نَجْمٌ صحيح وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ عُرْوَةُ: قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: إِنَّ بَرِيرَةَ دَخَلَتْ عَلَيْهَا تَسْتَعِينُهَا فِي كِتَابَتِهَا، وَعَلَيْهَا خَمْسَةُ أَوَاقٍ نُجِّمَتْ عَلَيْهَا فِي خَمْسِ سِنِينَ، فَقَالَتْ لَهَا عَائِشَةُ وَنَفِسَتْ فِيهَا: أَرَأَيْتِ إِنْ عَدَدْتُ لَهُمْ عَدَّةً وَاحِدَةً أَيَبِيعُكِ أَهْلُكِ، فَأُعْتِقَكِ، فَيَكُونَ وَلاَؤُكِ لِي، فَذَهَبَتْ بَرِيرَةُ إِلَى أَهْلِهَا، فَعَرَضَتْ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ، فَقَالُوا: لاَ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ لَنَا الوَلاَءُ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اشْتَرِيهَا، فَأَعْتِقِيهَا، فَإِنَّمَا الوَلاَءُ لِمَنْ أَعْتَقَ»، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «مَا بَالُ رِجَالٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، مَنِ اشْتَرَطَ شَرْطًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَهُوَ بَاطِلٌ شَرْطُ اللَّهِ أَحَقُّ وَأَوْثَقُ»
کتاب: مکاتب کے مسائل کا بیان
باب : جس نے اپنے لونڈی غلام کو زنا کی جھوٹی تہمت لگائی اس کا گناہ
لیث نے کہا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ بریرہ رضی اللہ عنہا ان کے پاس آئیں اپنے مکاتبت کے معاملہ میں ان کی مدد حاصل کرنے کے لیے۔ بریرہ رضی اللہ عنہا کو پانچ اوق یہ چاندی پانچ سال کے اندر پانچ قسطوں میں ادا کرنی تھی۔ عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا، انہیں خود بریرہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کرانے میں دلچسپی ہوگئی تھی، کہ یہ بتاو¿ اگر میں انہیں ایک ہی مرتبہ ( چاندی کے یہ پانچ اوق یہ ) ادا کردوں تو کیا تمہارے مالک تمہیں میرے ہاتھ بیچ دیں گے؟ پھر میں تمہیں آزاد کردوں گی اور تمہاری ولاءمیرے ساتھ قائم ہوجائےگی۔ بریرہ رضی اللہ عنہا اپنے مالکوں کے ہاں گئیں اور ان کے آگے یہ صورت رکھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ صورت اس وقت منظور کرسکتے ہیں کہ رشتہ ولاءہمارے ساتھ رہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر میرے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا آپ نے فرمایا کہ تو خرید کر بریرہ رضی اللہ عنہ کو آزاد کردے، ولاءتو اس کی ہوتی ہے جو آزاد کرے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطاب فرمایا کہ کچھ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو ( معاملات میں ) ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کی کوئی جڑ بنیاد کتاب اللہ میں نہیں ہے۔ پس جو شخص کوئی ایسی شرط لگائے جس کی کوئی اصل کتاب اللہ میں نہ ہو تو وہ شرط غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ کی شرط ہی زیادہ حق اور زیادہ مضبوط ہے۔
تشریح :
اس تفصیلی مدلل بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ غلام لونڈی اگر اپنے آقاؤں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے مکاتبت کا معاملہ کرنا چاہیں اور ان میں اتنی اہلیت بھی ہو کہ کسی نہ کسی طرح اس معاملہ کو باحسن طریق پورا کریں گے تو آقاؤں کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ معاملہ کرکے ان کو آزاد کردیں۔ آیت کریمہ ان علمتم فیہمم خیرا ( النور: 33 ) ( اگر تم ان میں خیر دیکھو تو ان سے مکاتبت کرلو ) میں خیر سے مراد یہ ہے کہ وہ کمائی کے لائق اور ایماندار ہوں، محنت مزدوری کرکے بدل کتابت ادا کردیں، لوگوں کے سامنے بھیک مانگتے نہ پھریں۔ واتوہم من مال ا الذي اتکُم ( النور: 33 ) ( اور اپنے مال میں سے جو اللہ نے تم کو دیا ہے ان کی کچھ مدد بھی کرو ) سے مراد یہ کہ اپنے پاس ان کو بطور امداد کچھ دو، تاکہ وہ اپنے قدموں پر کھڑے ہوسکیں یا بدل کتابت میں سے کچھ معاف کردو۔
روح کے اثر کو اسماعیل قاضی نے احکام القرآن میں اور عبدالرزاق اور شافعی نے وصل کیا ہے۔ حضرت عطاءنے واجب قرار دیا کہ بشرط مذکور آقا غلام کی مکاتبت قبول کرلے۔ امام ابن حزم اور ظاہریہ کے نزدیک اگر غلام مکاتبت کا خواہاں ہو تو مالک پر مکاتبت کردینا واجب ہے۔ کیوں کہ قرآن میں فکاتبوہم امر کے لیے ہے جو وجوب کے لیے ہوتا ہے۔ مگر جمہور یہاں امر کو بطور استحباب قرار دیتے ہیں۔ حضرت عطاءنے جب اپنا خیال ظاہر کیا تو عمروبن دینار نے ان سے سوال کیا کہ وجوب کا قول آپ نے کسی صحابی سے سنا ہے یا اپنے قیاس اور رائے سے ایسا کہتے ہو۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ عمرو بن دینار نے عطاءسے یہ پوچھا لیکن حافظ نے کہا یہ صحیح نہیں ہے بلکہ ابن جریج نے عطاءسے یہ پوچھا۔ جیسے عبدالرزاق اور شافعی کی روایت میں اس کی تصریح ہے۔ اس صورت میں قال عمروبن دینار جملہ معترضہ ہوگا۔ اور نسفی کی روایت میں یوں ہے وقالہ عمرو بن دینار یعنی عمرو بن دینا بھی وجوب کے قائل ہوئے ہیں اور ترجمہ یوں گا ” اور عمروبن دینا نے بھی اس کو واجب کہا ہے “ ابن جریج نے کہا میں نے عطاءسے پوچھا کیا یہ تم کسی سے روایت کرتے ہو؟
آگے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول مذکور ہے اور عمل بھی ظاہر ہے کہ وہ بشرط مذکور مکاتبت کو واجب کہتے تھے۔ جیسے ابن حزم اور ظاہریہ کا قول ہے۔ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا پر پانچ اوقیہ چاندی پانچ سال میں ادا کرنی مقرر ہوئی تھی۔ اسی سے باب کا مطلب نکلا۔ بعض علماءنے کہا کہ آیت کریمہ واتوہم من مال ا الذي اتکم ( النور: 33 ) سے مکاتب کو مال زکوٰۃ میں سے بھی امداد دی جاسکتی ہے۔ دور حاضرہ میں ناحق مصائب قید میں گرفتار ہوجانے والے مسلمان مرد عورت بھی حق رکھتے ہیں کہ ان کی آزاد ی کے لیے ان طریقوں سے مدد دی جائے۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ قبیلہ خزرج سے تھے۔ ان کی والدہ کا نام ام سلیم بنت ملحان تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ان کی عمر دس سال کی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں بصرہ میں قیام کیا۔ وہاں لوگوں کو91ھ تک علوم دین سکھاتے رہے۔ عمر سو سال کے لگ بھگ پائی۔ ان کی اولاد کا بھی شمار سو کے قریب ہے۔ بہت سے لوگوں نے ان سے روایت کی ہے۔
اس تفصیلی مدلل بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ غلام لونڈی اگر اپنے آقاؤں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے مکاتبت کا معاملہ کرنا چاہیں اور ان میں اتنی اہلیت بھی ہو کہ کسی نہ کسی طرح اس معاملہ کو باحسن طریق پورا کریں گے تو آقاؤں کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ معاملہ کرکے ان کو آزاد کردیں۔ آیت کریمہ ان علمتم فیہمم خیرا ( النور: 33 ) ( اگر تم ان میں خیر دیکھو تو ان سے مکاتبت کرلو ) میں خیر سے مراد یہ ہے کہ وہ کمائی کے لائق اور ایماندار ہوں، محنت مزدوری کرکے بدل کتابت ادا کردیں، لوگوں کے سامنے بھیک مانگتے نہ پھریں۔ واتوہم من مال ا الذي اتکُم ( النور: 33 ) ( اور اپنے مال میں سے جو اللہ نے تم کو دیا ہے ان کی کچھ مدد بھی کرو ) سے مراد یہ کہ اپنے پاس ان کو بطور امداد کچھ دو، تاکہ وہ اپنے قدموں پر کھڑے ہوسکیں یا بدل کتابت میں سے کچھ معاف کردو۔
روح کے اثر کو اسماعیل قاضی نے احکام القرآن میں اور عبدالرزاق اور شافعی نے وصل کیا ہے۔ حضرت عطاءنے واجب قرار دیا کہ بشرط مذکور آقا غلام کی مکاتبت قبول کرلے۔ امام ابن حزم اور ظاہریہ کے نزدیک اگر غلام مکاتبت کا خواہاں ہو تو مالک پر مکاتبت کردینا واجب ہے۔ کیوں کہ قرآن میں فکاتبوہم امر کے لیے ہے جو وجوب کے لیے ہوتا ہے۔ مگر جمہور یہاں امر کو بطور استحباب قرار دیتے ہیں۔ حضرت عطاءنے جب اپنا خیال ظاہر کیا تو عمروبن دینار نے ان سے سوال کیا کہ وجوب کا قول آپ نے کسی صحابی سے سنا ہے یا اپنے قیاس اور رائے سے ایسا کہتے ہو۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ عمرو بن دینار نے عطاءسے یہ پوچھا لیکن حافظ نے کہا یہ صحیح نہیں ہے بلکہ ابن جریج نے عطاءسے یہ پوچھا۔ جیسے عبدالرزاق اور شافعی کی روایت میں اس کی تصریح ہے۔ اس صورت میں قال عمروبن دینار جملہ معترضہ ہوگا۔ اور نسفی کی روایت میں یوں ہے وقالہ عمرو بن دینار یعنی عمرو بن دینا بھی وجوب کے قائل ہوئے ہیں اور ترجمہ یوں گا ” اور عمروبن دینا نے بھی اس کو واجب کہا ہے “ ابن جریج نے کہا میں نے عطاءسے پوچھا کیا یہ تم کسی سے روایت کرتے ہو؟
آگے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول مذکور ہے اور عمل بھی ظاہر ہے کہ وہ بشرط مذکور مکاتبت کو واجب کہتے تھے۔ جیسے ابن حزم اور ظاہریہ کا قول ہے۔ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا پر پانچ اوقیہ چاندی پانچ سال میں ادا کرنی مقرر ہوئی تھی۔ اسی سے باب کا مطلب نکلا۔ بعض علماءنے کہا کہ آیت کریمہ واتوہم من مال ا الذي اتکم ( النور: 33 ) سے مکاتب کو مال زکوٰۃ میں سے بھی امداد دی جاسکتی ہے۔ دور حاضرہ میں ناحق مصائب قید میں گرفتار ہوجانے والے مسلمان مرد عورت بھی حق رکھتے ہیں کہ ان کی آزاد ی کے لیے ان طریقوں سے مدد دی جائے۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ قبیلہ خزرج سے تھے۔ ان کی والدہ کا نام ام سلیم بنت ملحان تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ان کی عمر دس سال کی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں بصرہ میں قیام کیا۔ وہاں لوگوں کو91ھ تک علوم دین سکھاتے رہے۔ عمر سو سال کے لگ بھگ پائی۔ ان کی اولاد کا بھی شمار سو کے قریب ہے۔ بہت سے لوگوں نے ان سے روایت کی ہے۔