كِتَابُ العِتْقِ بَابُ كَرَاهِيَةِ التَّطَاوُلِ عَلَى الرَّقِيقِ، وَقَوْلِهِ: عَبْدِي أَوْ أَمَتِي صحيح حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ، سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَزَيْدَ بْنَ خَالِدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا زَنَتِ الأَمَةُ فَاجْلِدُوهَا، ثُمَّ إِذَا زَنَتْ فَاجْلِدُوهَا، ثُمَّ إِذَا زَنَتْ فَاجْلِدُوهَا، - فِي الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ - بِيعُوهَا وَلَوْ بِضَفِيرٍ»
کتاب: غلاموں کی آزادی کے بیان میں
باب : غلام پر دست درازی کرنا اور یوں کہنا کہ یہ میرا غلام ہے یا لونڈی مکروہ ہے
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا زہری سے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے بیان کیا، کہا میں نے ابوہریرہ اور زید بن خالد رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جب باندی زنا کرائے تو اسے ( بطور حد شرعی ) کوڑے لگاوپھر اگر کرائے تو اسے کوڑے لگاو تیسری یاچوتھی بار میں ( آپ نے فرمایا کہ ) پھر اسے بیچ دو، خواہ قیمت میں ایک رسی ہی ملے۔
تشریح :
اس حدیث کو اس لیے لائے کہ اس میں لونڈی کے لیے امۃ کا لفظ فرمایا ہے۔ قسطلانی نے کہا کہ اس حدیث کے لانے سے یہ مقصود ہے کہ جب لونڈی زنا کرائے تو اس پر دست درازی منع نہیں ہے بلکہ اس کو سزا دینا ضروری ہے آخر میں راوی کا شک ہے کہ آپ نے تیسری بار میں بیچنے کا حکم فرمایا یا چوتھی بار میں۔
ان جملہ روایات کو نقل کرکے حضرت امام رحمہ اللہ نے ثابت فرمایا کہ مالکوں کو غلاموں اور لونڈیوں پر بڑائی نہ جتانی چاہئے۔ انسان ہونے کے ناطے سب برابر ہیں۔ شرافت اور بڑائی کی بنیاد ایمان اور تقویٰ ہے۔ حقیقی آقا حاکم مالک سب کا صرف اللہ تبارک و تعالی ہے۔ دنیاوی مالک آقا سب مجازی ہیں۔ آج ہیں اور کل نہیں۔ جن آیات اور احادیث میں ایسے الفاظ آقاؤں یا غلاموں کے لیے مستعمل ہوئے ہیں وہاں مجازی معانی مراد ہیں۔
اس حدیث کو اس لیے لائے کہ اس میں لونڈی کے لیے امۃ کا لفظ فرمایا ہے۔ قسطلانی نے کہا کہ اس حدیث کے لانے سے یہ مقصود ہے کہ جب لونڈی زنا کرائے تو اس پر دست درازی منع نہیں ہے بلکہ اس کو سزا دینا ضروری ہے آخر میں راوی کا شک ہے کہ آپ نے تیسری بار میں بیچنے کا حکم فرمایا یا چوتھی بار میں۔
ان جملہ روایات کو نقل کرکے حضرت امام رحمہ اللہ نے ثابت فرمایا کہ مالکوں کو غلاموں اور لونڈیوں پر بڑائی نہ جتانی چاہئے۔ انسان ہونے کے ناطے سب برابر ہیں۔ شرافت اور بڑائی کی بنیاد ایمان اور تقویٰ ہے۔ حقیقی آقا حاکم مالک سب کا صرف اللہ تبارک و تعالی ہے۔ دنیاوی مالک آقا سب مجازی ہیں۔ آج ہیں اور کل نہیں۔ جن آیات اور احادیث میں ایسے الفاظ آقاؤں یا غلاموں کے لیے مستعمل ہوئے ہیں وہاں مجازی معانی مراد ہیں۔