كِتَابُ العِتْقِ بَابُ كَرَاهِيَةِ التَّطَاوُلِ عَلَى الرَّقِيقِ، وَقَوْلِهِ: عَبْدِي أَوْ أَمَتِي صحيح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «كُلُّكُمْ رَاعٍ فَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ، وَالمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ، وَالعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ، أَلاَ فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ»
کتاب: غلاموں کی آزادی کے بیان میں
باب : غلام پر دست درازی کرنا اور یوں کہنا کہ یہ میرا غلام ہے یا لونڈی مکروہ ہے
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ عمری نے بیان کیا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ پس لوگوں کا واقعی امیر ایک حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں اس سے سوال ہوگا۔ دوسرے ہر آدمی اپنے گھر والوں پر حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ تیسری عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر حاکم ہے اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ چوتھا غلام اپنے آقا ( سید ) کے مال کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ پس جان لو کہ تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں ( قیامت کے دن ) پوچھ ہوگی۔
تشریح :
اس روایت میں بھی غلام کے لیے لفظ عبد اور آقا کے لیے لفظ سید کا استعمال ہوا ہے۔ اس طرح مجازی معنوں میں ان الفاظ کا استعمال کرنا درست ہے۔ حضرت امام رحمہ اللہ کا یہی مقصد ہے جس کے تحت یہاں آپ یہ جملہ روایات لائے ہیں۔ ان الفاظ کا استعمال منع بھی ہے جب حقیقی معانی مراد لیے جائیں۔ اور یہ اس میں تطبیق ہے۔
اس روایت میں بھی غلام کے لیے لفظ عبد اور آقا کے لیے لفظ سید کا استعمال ہوا ہے۔ اس طرح مجازی معنوں میں ان الفاظ کا استعمال کرنا درست ہے۔ حضرت امام رحمہ اللہ کا یہی مقصد ہے جس کے تحت یہاں آپ یہ جملہ روایات لائے ہیں۔ ان الفاظ کا استعمال منع بھی ہے جب حقیقی معانی مراد لیے جائیں۔ اور یہ اس میں تطبیق ہے۔