كِتَابُ العِتْقِ بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «العَبِيدُ إِخْوَانُكُمْ فَأَطْعِمُوهُمْ مِمَّا تَأْكُلُونَ» صحيح حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا وَاصِلٌ الأَحْدَبُ، قَالَ: سَمِعْتُ المَعْرُورَ بْنَ سُويْدٍ، قَالَ: رَأَيْتُ أَبَا ذَرٍّ الغِفَارِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ، وَعَلَى غُلاَمِهِ حُلَّةٌ، فَسَأَلْنَاهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: إِنِّي سَابَبْتُ رَجُلًا، فَشَكَانِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَعَيَّرْتَهُ بِأُمِّهِ»، ثُمَّ قَالَ: «إِنَّ إِخْوَانَكُمْ خَوَلُكُمْ جَعَلَهُمُ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ، فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ، فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ، وَلْيُلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبَسُ، وَلاَ تُكَلِّفُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ، فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ فَأَعِينُوهُمْ»
کتاب: غلاموں کی آزادی کے بیان میں
باب : نبی کریم ﷺ کا یہ فرمانا کہ ” غلام تمہارے بھائی ہیں پس ان کو بھی تم اسی میں سے کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو “
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ہم سے واصل بن حیان نے جو کبڑے تھے، بیان کیا، کہا کہ میں نے معرور بن سوید سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ ان کے بدن پر بھی ایک جوڑا تھا اور ان کے غلام کے بدن پر بھی اسی قسم کا ایک جوڑا تھا۔ ہم نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ ایک دفعہ میری ایک صاحب ( یعنی بلال رضی اللہ عنہ سے ) سے کچھ گالی گلوچ ہوگئی تھی۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میری شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم نے انہیں ان کی ماں کی طرف سے عار دلائی ہے؟ پھر آپ نے فرمایا، تمہارے غلام بھی تمہارے بھائی ہیں اگر چہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہاری ماتحتی میں دے رکھا ہے۔ اس لیے جس کا بھی کوئی بھائی اس کے قبضہ میں ہو اسے وہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے اور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔ لیکن اگر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالو تو پھر ان کی خود مدد بھی کردیا کرو۔
تشریح :
تاکہ وہ آسانی سے اس خدمت کو انجام دے سکیں۔
روایت میں مذکورہ غلام سے حضرت بلال رضی اللہ عنہ مراد ہیں۔ بعضوں نے کہا ابوذر رضی اللہ عنہ کے بھائیوں میں سے کوئی تھے جیسے مسلم کی روایت میں ہے۔ غلام کو ساتھ کھلانے کا حکم استحباباً ہے۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ اپنے غلام کو ساتھ ہی کھلاتے اور اپنے ہی جیسا کپڑا پہناتے تھے۔ آیات باب میں ذی القربیٰ سے رشتہ دار مراد ہیں۔ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس کو علی بن ابی طلحہ نے بیان کیا اور جنب سے بعضوں نے یہودی اور نصرانی مراد رکھا ہے۔ یہ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے نکالا۔ اور جار الجنب کی جو تفسیر امام بخاری رحمہ اللہ نے کی ہے وہ مجاہد اور قتادہ سے منقول ہے۔ ا س حدیث سے ان معاندین اسلام کی بھی تردید ہوتی ہے جو اسلام پر غلامی کاالزام لگاتے ہیں۔ حالانکہ رسم غلامی کی جڑوں کو اسلام ہی نے کھوکھلا کیا ہے۔
تاکہ وہ آسانی سے اس خدمت کو انجام دے سکیں۔
روایت میں مذکورہ غلام سے حضرت بلال رضی اللہ عنہ مراد ہیں۔ بعضوں نے کہا ابوذر رضی اللہ عنہ کے بھائیوں میں سے کوئی تھے جیسے مسلم کی روایت میں ہے۔ غلام کو ساتھ کھلانے کا حکم استحباباً ہے۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ اپنے غلام کو ساتھ ہی کھلاتے اور اپنے ہی جیسا کپڑا پہناتے تھے۔ آیات باب میں ذی القربیٰ سے رشتہ دار مراد ہیں۔ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس کو علی بن ابی طلحہ نے بیان کیا اور جنب سے بعضوں نے یہودی اور نصرانی مراد رکھا ہے۔ یہ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے نکالا۔ اور جار الجنب کی جو تفسیر امام بخاری رحمہ اللہ نے کی ہے وہ مجاہد اور قتادہ سے منقول ہے۔ ا س حدیث سے ان معاندین اسلام کی بھی تردید ہوتی ہے جو اسلام پر غلامی کاالزام لگاتے ہیں۔ حالانکہ رسم غلامی کی جڑوں کو اسلام ہی نے کھوکھلا کیا ہے۔