‌صحيح البخاري - حدیث 2540

كِتَابُ العِتْقِ بَابُ مَنْ مَلَكَ مِنَ العَرَبِ رَقِيقًا، فَوَهَبَ وَبَاعَ وَجَامَعَ وَفَدَى وَسَبَى الذُّرِّيَّةَ صحيح حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، ذَكَرَ عُرْوَةُ أَنَّ مَرْوَانَ، وَالمِسْوَرَ بْنَ [ص:148] مَخْرَمَةَ، أَخْبَرَاهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ حِينَ جَاءَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ، فَسَأَلُوهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَسَبْيَهُمْ، فَقَالَ: إِنَّ مَعِي مَنْ تَرَوْنَ، وَأَحَبُّ الحَدِيثِ إِلَيَّ أَصْدَقُهُ، فَاخْتَارُوا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ: إِمَّا المَالَ وَإِمَّا السَّبْيَ، وَقَدْ كُنْتُ اسْتَأْنَيْتُ بِهِمْ ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْتَظَرَهُمْ بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً حِينَ قَفَلَ مِنَ الطَّائِفِ، فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ رَادٍّ إِلَيْهِمْ إِلَّا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ، قَالُوا: فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْيَنَا، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: «أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ إِخْوَانَكُمْ قَدْ جَاءُونَا تَائِبِينَ، وَإِنِّي رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُطَيِّبَ ذَلِكَ فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَكُونَ عَلَى حَظِّهِ حَتَّى نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيءُ اللَّهُ عَلَيْنَا فَلْيَفْعَلْ»، فَقَالَ النَّاسُ: طَيَّبْنَا لَكَ ذَلِكَ، قَالَ: «إِنَّا لاَ نَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ، فَارْجِعُوا حَتَّى يَرْفَعَ إِلَيْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ» فَرَجَعَ النَّاسُ، فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ، ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرُوهُ: أَنَّهُمْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا، فَهَذَا الَّذِي بَلَغَنَا عَنْ سَبْيِ هَوَازِنَ، وَقَالَ أَنَسٌ: قَالَ عَبَّاسٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَادَيْتُ نَفْسِي، وَفَادَيْتُ عَقِيلًا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2540

کتاب: غلاموں کی آزادی کے بیان میں باب : اگر عربوں پر جہاد ہو اور کوئی ان کو غلام بنائے پھر ہبہ کرے یا عربی لونڈی سے جماع کرے یا فد یہ لے یہ سب باتیں درست ہیں یا بچوں کو قید کرے ہم سے ابن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ مجھے لیث نے خبر دی، انہیں عقیل نے، انہیں ابن شہاب نے کہ عروہ نے ذکر کیا کہ مروان اور مسور بن مخرمہ نے انہیں خبر دی کہ جب ہوازن قبیلہ کی بھیجے ہوئے لوگ ( مسلمان ہوکر ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ آپ نے کھڑے ہوکر ان سے ملاقات فرمائی، پھر ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے درخواست کی کہ ان کے اموال اور قیدی واپس کردیے جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے ( خطبہ سنایا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دیکھتے ہو میرے ساتھ جو لوگ ہیں ( میں اکیلا ہوتا تو تم کو واپس کردیتا ) اور بات وہی مجھے پسند ہے جو سچ ہو۔ اس لیے دو چیزوں میں سے ایک ہی تمہیں اختیار کرنی ہوگی، یا اپنا مال واپس لے لو، یا اپنے قیدیوں کو چھڑا لو، اسی لیے میں نے ان کی تقسیم میں بھی دےر کی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف سے لوٹتے ہوئے ( جعرانہ میں ) ہوازن والوں کا وہاں پر کئی راتوں تک انتظار کیا تھا۔ جب ان لوگوں پر یہ بات پوری طرح ظاہر ہوگئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوچیزوں ( مال اور قیدی ) میں سے صرف ایک ہی کو واپس فرماسکتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ ہمیں ہمارے آدمی ہی واپس کردیجئے جو آپ کی قید میں ہیں۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے خطاب فرمایا، اللہ کی تعریف اس کی شان کے مطابق کرنے کے بعد فرمایا، اما بعد ! یہ تمہارے بھائی ہمارے پاس نادم ہوکر آئے ہیں اور میرا بھی خیال یہ ہے کہ ان کے آدمی جو ہماری قید میں ہیں، انہیں واپس کردیے جائیں۔ اب جو شخص اپنی خوشی سے ان کے آدمیوں کو واپس کرے وہ ایسا کرلے اور جو شخص اپنے حصے کو چھوڑنا نہ چاہے ( اور اس شرط پر اپنے قیدیوں کو آزاد کرنے کے لیے تیار ہو کہ ان قیدیوں کے بدلے میں ) ہم اسے اس کے بعد سب سے پہلی مال غنیمت میں سے جو اللہ تعالیٰ ہمیں دے گا اس کے ( اس ) حصے کا بدلہ اس کے حوالہ کردیں گے تو وہ ایسا کرلے۔ لوگ اس پر بول پڑے کہ ہم اپنی خوشی سے قیدی کو واپس کرنے کے لیے تیار ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا، لیکن ہم پر یہ ظاہر نہ ہوسکا کہ کس نے ہمیں اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی ہے۔ اس لیے سب لوگ ( اپنے خیموں میں ) واپس جائیں اور سب کے چودھری آکر ان کی رائے سے ہمیں آگاہ کریں۔ چنانچہ سب لوگ چلے آئے اور ان کے سرداروں نے ( ان سے گفتگو کی ) پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ کو خبر دی کہ سب نے اپنی خوشی سے اجازت دے دی ہے۔ یہ ی وہ خبر ہے جو ہمیں ہوازن کے قیدیوں کے سلسلے میں معلوم ہوئی ہے۔ ( زہری نے کہا ) اور انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ( جب بحرین سے مال آیا ) کہا تھا کہ ( بدر کے موقع پر ) میں نے اپنا بھی فد یہ دیا تھا اور عقیل رضی اللہ عنہ کا بھی۔
تشریح : یہ طویل حدیث حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کئی جگہ لائے ہیں اور اس سے آپ نے بہت سے مسائل کا استخراج فرمایا ہے۔ حضرت امام نے باب منعقدہ کے ذیل آیت قرآنی کو نقل فرمایا جس سے آپ نے باب کا مطلب یوں ثابت کیا کہ آیت میں یہ قید نہیں ہے کہ وہ غلام عرب کا نہ ہو عجمی ہو بلکہ عربی اور عجمی دونوں کو شامل ہے۔ حدیث میں قبیلہ عربی ہوازن کے قیدیوں کا ذکر ہے جو جنگ ہوازن میں کامیابی کے بعد مسلمانوں کے ہاتھ لگے تھے۔ اس سے بھی مقصد باب ثابت ہوا کہ لونڈی غلام بوقت مناسب عربوں کو بھی بنایا جاسکتا ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس جنگ سے فارغ ہوکر واپس ہوئے تو آپ واپس ہی ہوئے تھے کہ وفد ہوازن اپنے ایسے ہی مطالبات لے کر حاضر ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مطالبات میں سے صرف قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ منظور فرمالیا مگر اس شرط کے ساتھ کہ دیگر جملہ مسلمان بھی اس پر تیار ہوجائیں۔ چنانچہ جملہ اہل اسلام ان غلاموں کو واپس کرنے پر تیار ہوگئے۔ مگر یہ لوگ شمار میں بہت تھے۔ اس لیے ان میں سے ہر ایک کی رضا مندی فرداً فرداً معلوم کرنی ضروری تھی۔ آپ نے یہ حکم دیا کہ تم جاؤ اور اپنے اپنے چودھریوں سے جو کچھ تم کو منظور ہو وہ بیان کرو، ہم ان سے پوچھ لیں گے۔ چنانچہ یہی ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جملہ مردوں عورتوں کو واپس کرادیا۔ بحرین کے مال کی آمد پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تقسیم کے لیے اعلان عام فرمادیا تھا، اس وقت حضرت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے اس مال کی درخواست کے ساتھ کہا تھا کہ میں اس کا بہت زیادہ مستحق ہوں، کیوں کہ بدر کے موقع پر میں نہ صرف اپنا بلکہ حضرت عقیل رضی اللہ عنہ کا بھی زر فدیہ ادا کرکے خالی ہاتھ ہوچکا ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دی تھی کہ وہ جس قدر روپیہ خود آپ اٹھاسکیں لے جائیں۔ اسی طرف اشارہ ہے اور یہ بھی کہ عربوں کو بھی بحالت مقررہ غلام بنایا جاسکتا ہے کہ جنگ بدر میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عقیل رضی اللہ عنہ جیسے اشراف قریش کو بھی دور غلامی سے گزرنا پڑا۔ کاش یہ معزز حضرات شروع ہی میں اسلام سے مشرف ہوجاتے۔ مگر سچ ہے انک لا تہدي من احببت و لکن ایہدي من یشآئ ( القصص: 56 ) یہ طویل حدیث حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کئی جگہ لائے ہیں اور اس سے آپ نے بہت سے مسائل کا استخراج فرمایا ہے۔ حضرت امام نے باب منعقدہ کے ذیل آیت قرآنی کو نقل فرمایا جس سے آپ نے باب کا مطلب یوں ثابت کیا کہ آیت میں یہ قید نہیں ہے کہ وہ غلام عرب کا نہ ہو عجمی ہو بلکہ عربی اور عجمی دونوں کو شامل ہے۔ حدیث میں قبیلہ عربی ہوازن کے قیدیوں کا ذکر ہے جو جنگ ہوازن میں کامیابی کے بعد مسلمانوں کے ہاتھ لگے تھے۔ اس سے بھی مقصد باب ثابت ہوا کہ لونڈی غلام بوقت مناسب عربوں کو بھی بنایا جاسکتا ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس جنگ سے فارغ ہوکر واپس ہوئے تو آپ واپس ہی ہوئے تھے کہ وفد ہوازن اپنے ایسے ہی مطالبات لے کر حاضر ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مطالبات میں سے صرف قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ منظور فرمالیا مگر اس شرط کے ساتھ کہ دیگر جملہ مسلمان بھی اس پر تیار ہوجائیں۔ چنانچہ جملہ اہل اسلام ان غلاموں کو واپس کرنے پر تیار ہوگئے۔ مگر یہ لوگ شمار میں بہت تھے۔ اس لیے ان میں سے ہر ایک کی رضا مندی فرداً فرداً معلوم کرنی ضروری تھی۔ آپ نے یہ حکم دیا کہ تم جاؤ اور اپنے اپنے چودھریوں سے جو کچھ تم کو منظور ہو وہ بیان کرو، ہم ان سے پوچھ لیں گے۔ چنانچہ یہی ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جملہ مردوں عورتوں کو واپس کرادیا۔ بحرین کے مال کی آمد پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تقسیم کے لیے اعلان عام فرمادیا تھا، اس وقت حضرت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے اس مال کی درخواست کے ساتھ کہا تھا کہ میں اس کا بہت زیادہ مستحق ہوں، کیوں کہ بدر کے موقع پر میں نہ صرف اپنا بلکہ حضرت عقیل رضی اللہ عنہ کا بھی زر فدیہ ادا کرکے خالی ہاتھ ہوچکا ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دی تھی کہ وہ جس قدر روپیہ خود آپ اٹھاسکیں لے جائیں۔ اسی طرف اشارہ ہے اور یہ بھی کہ عربوں کو بھی بحالت مقررہ غلام بنایا جاسکتا ہے کہ جنگ بدر میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عقیل رضی اللہ عنہ جیسے اشراف قریش کو بھی دور غلامی سے گزرنا پڑا۔ کاش یہ معزز حضرات شروع ہی میں اسلام سے مشرف ہوجاتے۔ مگر سچ ہے انک لا تہدي من احببت و لکن ایہدي من یشآئ ( القصص: 56 )