‌صحيح البخاري - حدیث 2538

كِتَابُ العِتْقِ بَابُ عِتْقِ المُشْرِكِ صحيح حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي، أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَعْتَقَ فِي الجَاهِلِيَّةِ مِائَةَ رَقَبَةٍ، وَحَمَلَ عَلَى مِائَةِ بَعِيرٍ، فَلَمَّا أَسْلَمَ حَمَلَ عَلَى مِائَةِ بَعِيرٍ، وَأَعْتَقَ مِائَةَ رَقَبَةٍ، قَالَ: فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ أَشْيَاءَ كُنْتُ أَصْنَعُهَا فِي الجَاهِلِيَّةِ كُنْتُ أَتَحَنَّثُ بِهَا - يَعْنِي أَتَبَرَّرُ بِهَا -؟ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَسْلَمْتَ عَلَى مَا سَلَفَ لَكَ مِنْ خَيْرٍ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2538

کتاب: غلاموں کی آزادی کے بیان میں باب : مشرک غلام کو آزادکرنے کا ثواب ملے گا یا نہیں؟ ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، انہیں ان کے والد نے خبر دی کہ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے اپنے کفر کے زمانے میں سو غلام آزاد کیے تھے اور سو اونٹ لوگوں کی سواری کے لیے دیے تھے۔ پھر جب اسلام لائے تو سو اونٹ لوگوں کی سواری کے لیے دیے اور سو غلام آزاد کیے۔ پھر انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، یا رسول اللہ ! بعض ان نیک اعمال کے متعلق آپ کا فتویٰ کیا ہی جنہیں میں بہ نیت ثواب کفر کے زمانہ میں کیا کرتا تھا ( ہشام بن عروہ نے کہا کہ اتحنث بہا کے معنی تبرربہا کے ہیں ) انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا ” جو نیکیاں تم پہلے کرچکے ہو وہ سب قائم رہیں گی “۔
تشریح : یہ اللہ جل جلالہ کی عنایت ہے اپنے مسلمان بندوں پر حالانکہ کافر کی کوئی نیکی مقبول نہیں اورآخرت میں اس کو ثواب نہیں ملنے کا۔ مگر جو کافر مسلمان ہوجائے اس کے کفر کے زمانے کی نیکیاں بھی قائم رہیں گی۔ اب جن علماءنے اس حدیث کے خلاف رائے لگائی ہے ان سے یہ کہنا چاہئے کہ آخرت کا حال پیغمبر صاحب تم سے زیادہ جانتے تھے۔ جب اللہ ایک فضل کرتا ہے تو تم کیوں اس کے فضل کو روکتے ہو ام یحسدون الناس علي مآ اتھم ا من فضلہ ( النسائ: 54 ) ( وحیدی ) حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ وہ جلیل القدر بزرگ سخی تر صحابی ہیں جنہوں نے قبل اسلام سو غلام آزاد کئے اور سو اونٹ لوگوں کی سواری کے لیے دئیے تھے۔ پھر اللہ نے ان کو دولت اسلام سے نوازا تو ان کو خیال آیا کہ کیوں نہ اسلام میں بھی ایسے ہی نیک کام کئے جائیں۔ چنانچہ مسلمان ہونے کے بعد پھر سو اونٹ لوگوں کی سواری کے لئے دئیے اور سو غلام آزاد کئے۔ کہتے ہیں کہ یہ سو اونٹ ہر دو زمانوں میں انہوں نے حاجیوں کی سواری کے لئے پیش کئے تھے۔ پھر ان کو مکہ شریف میں قربان کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بشارت دی کہ اسلام لانے کے بعد ان کی عہد کفر کی بھی جملہ نیکیاں ثابت رہیں گی اور اللہ پاک سب کا ثواب عظیم ان کو عطا کرے گا۔ اس سے مقصد باب ثابت ہوا کہ مشرک کافر بھی اگر کوئی غلام آزاد کرے تو اس کا یہ نیک عمل صحیح قرار دیا جائے گا۔ غیرمسلم جو نیکیاں کرتے ہیں ان کو دنیا میں ان کی جزا مل جاتی ہے۔ ومالہ في الاخر من نصیب ( الشوریٰ: 20 ) یعنی آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ یہ اللہ جل جلالہ کی عنایت ہے اپنے مسلمان بندوں پر حالانکہ کافر کی کوئی نیکی مقبول نہیں اورآخرت میں اس کو ثواب نہیں ملنے کا۔ مگر جو کافر مسلمان ہوجائے اس کے کفر کے زمانے کی نیکیاں بھی قائم رہیں گی۔ اب جن علماءنے اس حدیث کے خلاف رائے لگائی ہے ان سے یہ کہنا چاہئے کہ آخرت کا حال پیغمبر صاحب تم سے زیادہ جانتے تھے۔ جب اللہ ایک فضل کرتا ہے تو تم کیوں اس کے فضل کو روکتے ہو ام یحسدون الناس علي مآ اتھم ا من فضلہ ( النسائ: 54 ) ( وحیدی ) حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ وہ جلیل القدر بزرگ سخی تر صحابی ہیں جنہوں نے قبل اسلام سو غلام آزاد کئے اور سو اونٹ لوگوں کی سواری کے لیے دئیے تھے۔ پھر اللہ نے ان کو دولت اسلام سے نوازا تو ان کو خیال آیا کہ کیوں نہ اسلام میں بھی ایسے ہی نیک کام کئے جائیں۔ چنانچہ مسلمان ہونے کے بعد پھر سو اونٹ لوگوں کی سواری کے لئے دئیے اور سو غلام آزاد کئے۔ کہتے ہیں کہ یہ سو اونٹ ہر دو زمانوں میں انہوں نے حاجیوں کی سواری کے لئے پیش کئے تھے۔ پھر ان کو مکہ شریف میں قربان کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بشارت دی کہ اسلام لانے کے بعد ان کی عہد کفر کی بھی جملہ نیکیاں ثابت رہیں گی اور اللہ پاک سب کا ثواب عظیم ان کو عطا کرے گا۔ اس سے مقصد باب ثابت ہوا کہ مشرک کافر بھی اگر کوئی غلام آزاد کرے تو اس کا یہ نیک عمل صحیح قرار دیا جائے گا۔ غیرمسلم جو نیکیاں کرتے ہیں ان کو دنیا میں ان کی جزا مل جاتی ہے۔ ومالہ في الاخر من نصیب ( الشوریٰ: 20 ) یعنی آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔