كِتَابُ العِتْقِ بَابُ إِذَا أُسِرَ أَخُو الرَّجُلِ، أَوْ عَمُّهُ، هَلْ يُفَادَى إِذَا كَانَ مُشْرِكًا صحيح حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَنَسٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رِجَالًا مِنَ الأَنْصَارِ اسْتَأْذَنُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: ائْذَنْ لَنَا، فَلْنَتْرُكْ لِابْنِ أُخْتِنَا عَبَّاسٍ فِدَاءَهُ، فَقَالَ: «لاَ تَدَعُونَ مِنْهُ دِرْهَمًا»
کتاب: غلاموں کی آزادی کے بیان میں
باب : اگر کسی مسلمان کا مشرک بھائی یا چچا قید ہوکر آئے تو کیا ( ان کو چھڑانے کے لیے ) اس کی طرف سے فد یہ دیا جاسکتا ہے؟
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے موسیٰ نے، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انصار کے بعض لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور اجازت چاہی اور آکر عرض کیا کہ آپ ہمیں اس کی اجازت دے دیجئے کہ ہم اپنے بھانجے عباس کا فد یہ معاف کردیں آپ نے فرمایا کہ نہیں ایک درہم بھی نہ چھوڑو۔
تشریح :
حضرت عباس کے والد عبدالمطلب کی والدہ سلمی انصار میں سے تھیں، بنی نجار کے قبیلے کی۔ اس لیے ان کو اپنا بھانجا کہا۔ سبحان اللہ! انصار کا ادب! یوں نہیں عرض کیا، اگر آپ اجازت دیں تو آپ کے چچا کا فدیہ معاف کردیں۔ کیوں کہ ایسا کہنے سے گویا آنحضرت رضی اللہ عنہ پر احسان رکھنا ہوتا۔ آنحضرت رضی اللہ عنہ خوب جانتے تھے کہ حضرت عباس مالدار ہیں۔ اس لیے فرمایا کہ ایک روپیہ بھی ان کو نہ چھوڑو۔ ایسا عدل و انصاف کہ اپنے سگے چچا تک کو بھی رعایت نہ کی پیغمبری کی کھلی ہوئی دلیل ہے۔ سمجھدار آدمی کو پیغمبری کے ثبوت کے لیے کسی بڑے معجزے کی ضرورت نہیں۔ آپ کی ایک ایک خصلت ہزار ہزار معجزوں کے برابر تھی۔ انصاف ایسا، عدل ایسا، سخاوت ایسی، شجاعت ایسی، صبر ایسا، استقلال ایسا کہ سارا ملک مخالف ہر کوئی جان کا دشمن، مگر اعلانیہ توحید کا وعظ فرماتے رہے، بتوں کی ہجو کرتے رہے۔ آخر میں عربوں جیسے سخت لوگوں کی کایا پلٹ دی۔ ہزاروں برس کی عادت بت پرستی کی چھڑا کر ان ہی کے ہاتھوں ان بتوں کو تڑوایا۔ پھرآج تیرہ سو برس گزرچکے، آپ کا دین شرقاً و غرباً پھیل رہا ہے۔ کیا کوئی جھوٹا آدمی ایسا کرسکتا ہے یا جھوٹے آدمی کا نام نیک اس طرح پر قائم رہ سکتا ہے۔ ( وحیدی )
عینی فرماتے ہیں: واختلف فی علۃ المنع فقیل انہ کان مشرکا و قیل منعہم خشیۃ ان یقع فی قلوب بعض المسلمین شی یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں منع فرمایا اس کی علت میں اختلاف ہے۔ بعض نے کہا اس لیے کہ اس وقت حضرت عباس مشرک تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ نے اس لیے منع فرمایا کہ کسی مسلمان کے دل میں کوئی بدگمانی نہ ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کے ساتھ ناروا رعایت کا برتاؤ کیا۔
حضرت عباس کے والد عبدالمطلب کی والدہ سلمی انصار میں سے تھیں، بنی نجار کے قبیلے کی۔ اس لیے ان کو اپنا بھانجا کہا۔ سبحان اللہ! انصار کا ادب! یوں نہیں عرض کیا، اگر آپ اجازت دیں تو آپ کے چچا کا فدیہ معاف کردیں۔ کیوں کہ ایسا کہنے سے گویا آنحضرت رضی اللہ عنہ پر احسان رکھنا ہوتا۔ آنحضرت رضی اللہ عنہ خوب جانتے تھے کہ حضرت عباس مالدار ہیں۔ اس لیے فرمایا کہ ایک روپیہ بھی ان کو نہ چھوڑو۔ ایسا عدل و انصاف کہ اپنے سگے چچا تک کو بھی رعایت نہ کی پیغمبری کی کھلی ہوئی دلیل ہے۔ سمجھدار آدمی کو پیغمبری کے ثبوت کے لیے کسی بڑے معجزے کی ضرورت نہیں۔ آپ کی ایک ایک خصلت ہزار ہزار معجزوں کے برابر تھی۔ انصاف ایسا، عدل ایسا، سخاوت ایسی، شجاعت ایسی، صبر ایسا، استقلال ایسا کہ سارا ملک مخالف ہر کوئی جان کا دشمن، مگر اعلانیہ توحید کا وعظ فرماتے رہے، بتوں کی ہجو کرتے رہے۔ آخر میں عربوں جیسے سخت لوگوں کی کایا پلٹ دی۔ ہزاروں برس کی عادت بت پرستی کی چھڑا کر ان ہی کے ہاتھوں ان بتوں کو تڑوایا۔ پھرآج تیرہ سو برس گزرچکے، آپ کا دین شرقاً و غرباً پھیل رہا ہے۔ کیا کوئی جھوٹا آدمی ایسا کرسکتا ہے یا جھوٹے آدمی کا نام نیک اس طرح پر قائم رہ سکتا ہے۔ ( وحیدی )
عینی فرماتے ہیں: واختلف فی علۃ المنع فقیل انہ کان مشرکا و قیل منعہم خشیۃ ان یقع فی قلوب بعض المسلمین شی یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں منع فرمایا اس کی علت میں اختلاف ہے۔ بعض نے کہا اس لیے کہ اس وقت حضرت عباس مشرک تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ نے اس لیے منع فرمایا کہ کسی مسلمان کے دل میں کوئی بدگمانی نہ ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کے ساتھ ناروا رعایت کا برتاؤ کیا۔