كِتَابُ العِتْقِ بَابُ إِذَا قَالَ رَجُلٌ لِعَبْدِهِ: هُوَ لِلَّهِ، وَنَوَى العِتْقَ، وَالإِشْهَادِ فِي العِتْقِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ بِشْرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّهُ لَمَّا أَقْبَلَ يُرِيدُ الإِسْلاَمَ، وَمَعَهُ غُلاَمُهُ ضَلَّ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِنْ صَاحِبِهِ، فَأَقْبَلَ بَعْدَ ذَلِكَ وَأَبُو هُرَيْرَةَ جَالِسٌ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَبَا هُرَيْرَةَ هَذَا غُلاَمُكَ قَدْ أَتَاكَ»، فَقَالَ: أَمَا إِنِّي أُشْهِدُكَ أَنَّهُ حُرٌّ، قَالَ: فَهُوَ حِينَ يَقُولُ: [البحر الطويل] يَا لَيْلَةً مِنْ طُولِهَا وَعَنَائِهَا ... عَلَى أَنَّهَا مِنْ دَارَةِ الكُفْرِ نَجَّتِ
کتاب: غلاموں کی آزادی کے بیان میں
باب : ایک شخص نے آزاد کرنے کی نیت سے اپنے غلام سے کہہ دیا کہ وہ اللہ کے لیے ہے ( تو وہ آزاد ہوگیا ) اور آزادی کے ثبوت کے لیے گواہ ( ضروری ہیں )
ہم سے محمد بن عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا، ان سے محمد بن بشر نے، ان سے اسماعیل نے، ان سے قیس نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ جب وہ اسلام قبول کرنے کے ارادے سے ( مدینہ کے لیے ) نکلے تو ان کے ساتھ ان کا غلام بھی تھا۔ ( راستے میں ) وہ دونوں ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔ پھر جب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ( مدینہ پہنچنے کے بعد ) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے تو ان کا غلام بھی اچانک آگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ابوہریرہ ! یہ لو تمہارا غلام بھی آگیا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا، حضور ! میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ یہ غلام اب آزاد ہے۔ راوی نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مدینہ پہنچ کر یہ شعر کہے تھے۔
ہے پیاری گو کٹھن ہے اور لمبی میری رات
پر دلائی اس نے دارالکفر سے مجھ کو نجات
تشریح :
حالانکہ آزادی کے لیے گواہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کو اس لیے بیان کیا کہ باب کی حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ کرکے اپنے غلام کو آزاد کیا تھا۔ بعضوں نے کہا امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ غلام کو یوں کہنا ” وہ اللہ کا ہے “ اس وقت آزاد ہوگا جب کہنے والے کی نیت آزاد کرنے کی ہو اگر کچھ اور مطلب مراد رکھے تو وہ آزاد نہ ہوگا۔ آزاد کرنے کے لیے بعض الفاظ تو صریح ہیں جیسے کہ وہ آزاد ہے یا میں نے تجھ کو آزادکردیا۔ بعضے کنایہ ہیں جیسے وہ اللہ کا ہے یعنی اب میری ملک اس پر نہیں رہی، وہ اللہ کی ملک ہوگیا۔
حالانکہ آزادی کے لیے گواہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کو اس لیے بیان کیا کہ باب کی حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ کرکے اپنے غلام کو آزاد کیا تھا۔ بعضوں نے کہا امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ غلام کو یوں کہنا ” وہ اللہ کا ہے “ اس وقت آزاد ہوگا جب کہنے والے کی نیت آزاد کرنے کی ہو اگر کچھ اور مطلب مراد رکھے تو وہ آزاد نہ ہوگا۔ آزاد کرنے کے لیے بعض الفاظ تو صریح ہیں جیسے کہ وہ آزاد ہے یا میں نے تجھ کو آزادکردیا۔ بعضے کنایہ ہیں جیسے وہ اللہ کا ہے یعنی اب میری ملک اس پر نہیں رہی، وہ اللہ کی ملک ہوگیا۔