كِتَابُ العِتْقِ بَابُ الخَطَإِ وَالنِّسْيَانِ فِي العَتَاقَةِ وَالطَّلاَقِ وَنَحْوِهِ، صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ، وَلِامْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ [ص:146] هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ»
کتاب: غلاموں کی آزادی کے بیان میں
باب : اگر بھول چوک کر کسی کی زبان سے عتاق ( آزادی ) یا طلاق یا اور کوئی ایسی ہی چیز نکل جائے
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابراہیم تیمی نے، ان سے علقمہ بن وقاص لیثی نے، کہا کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اعمال کا مدار نیت پر ہے اور ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق پھل ملتا ہے۔ پس جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہو، وہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے سمجھی جائے گی اور جس کی ہجرت دنیا کے لیے ہوگی یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے تو یہ ہجرت محض اسی کے لیے ہوگی جس کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے۔
تشریح :
اس حدیث کی شرح اوپر گزرچکی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ نکالا ہے کہ جب ہر کام کے درست ہونے کے لیے نیت شرط ہوئی تو اگر کسی شخص کی طلاق کی نیت نہ تھی لیکن بے اختیار کہنا کچھ چاہتا تھا زبان سے یہ نکل گیا انت طالق طلاق نہ پڑے گی۔ ( وحیدی )
مترجم کہتا ہے کہ یہ دل کی بات اور نیت کا معاملہ ہے۔ صاحب معاملہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس بارے میں خود اپنے دل سے فیصلہ کرے اور خدا کو حاضر و ناظر جان کر کرے اور پھر خود ہی اپنے بارے میں فتویٰ لے کہ وہ ایسی مطلقہ کو واپس لاسکتا ہے یا نہیں۔ جو لوگ بحالت ہوش و حواس اپنی عورتوں کو صاف طور پر طلاق دیتے ہیں، بعد میں حیلے بہانے کرکے واپس لانا چاہتے ہیں۔ ان کو جان لینا چاہئے کہ حلال ہونے کے باوجود طلاق عنداللہ نہایت ہی مبغوض ہے۔
اس حدیث کی شرح اوپر گزرچکی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ نکالا ہے کہ جب ہر کام کے درست ہونے کے لیے نیت شرط ہوئی تو اگر کسی شخص کی طلاق کی نیت نہ تھی لیکن بے اختیار کہنا کچھ چاہتا تھا زبان سے یہ نکل گیا انت طالق طلاق نہ پڑے گی۔ ( وحیدی )
مترجم کہتا ہے کہ یہ دل کی بات اور نیت کا معاملہ ہے۔ صاحب معاملہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس بارے میں خود اپنے دل سے فیصلہ کرے اور خدا کو حاضر و ناظر جان کر کرے اور پھر خود ہی اپنے بارے میں فتویٰ لے کہ وہ ایسی مطلقہ کو واپس لاسکتا ہے یا نہیں۔ جو لوگ بحالت ہوش و حواس اپنی عورتوں کو صاف طور پر طلاق دیتے ہیں، بعد میں حیلے بہانے کرکے واپس لانا چاہتے ہیں۔ ان کو جان لینا چاہئے کہ حلال ہونے کے باوجود طلاق عنداللہ نہایت ہی مبغوض ہے۔