‌صحيح البخاري - حدیث 2515

كِتَابُ الرَّهْنِ بَابُ إِذَا اخْتَلَفَ الرَّاهِنُ وَالمُرْتَهِنُ وَنَحْوُهُ، فَالْبَيِّنَةُ عَلَى المُدَّعِي، وَاليَمِينُ عَلَى المُدَّعَى عَلَيْهِ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ يَسْتَحِقُّ بِهَا مَالًا وَهُوَ فِيهَا فَاجِرٌ، لَقِيَ اللَّهَ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَصْدِيقَ ذَلِكَ: {إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا} [آل عمران: 77] فَقَرَأَ إِلَى {عَذَابٌ أَلِيمٌ} [آل عمران: 77]، ثُمَّ إِنَّ الأَشْعَثَ بْنَ قَيْسٍ خَرَجَ إِلَيْنَا، فَقَالَ مَا يُحَدِّثُكُمْ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ؟ قَالَ: فَحَدَّثْنَاهُ، قَالَ: فَقَالَ: صَدَقَ، لَفِيَّ وَاللَّهِ أُنْزِلَتْ، كَانَتْ بَيْنِي وَبَيْنَ رَجُلٍ خُصُومَةٌ فِي بِئْرٍ، فَاخْتَصَمْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ: «شَاهِدَاكَ أَوْ يَمِينُهُ»، قُلْتُ: إِنَّهُ إِذًا يَحْلِفُ وَلاَ يُبَالِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ يَسْتَحِقُّ بِهَا مَالًا، وَهُوَ فِيهَا فَاجِرٌ، لَقِيَ اللَّهَ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ» فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَصْدِيقَ ذَلِكَ، ثُمَّ اقْتَرَأَ هَذِهِ الآيَةَ: {إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا} [آل عمران: 77] إِلَى {وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ} [آل عمران: 77]

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2515

کتاب: رہن کے بیان میں باب : راہن اورمرتہن میں اگر کسی بات میں اختلاف ہو جائے یا ان کی طرح دوسرے لوگوں میں تو گواہی پیش کرنا مدعی کے ذمہ ہے، ورنہ ( منکر ) مدعیٰ عل یہ سے قسم لی جائے گی ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابو وائل نے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جو شخص جان بوجھ کر اس نیت سے جھوٹی قسم کھائے کہ اس طرح دوسرے کے مال پر اپنی ملکیت جمائے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوگا۔ اس ارشاد کی تصدیق میں اللہ تعالیٰ نے ( سورۃ آل عمران میں ) یہ آیت نازل فرمائی ” وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے ذریعہ دنیا کی تھوڑی پونجی خریدتی ہیں “ آخر آیت تک انہوں نے تلاوت کی۔ ابووائل نے کہا اس کے بعد اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ ہمارے گھر تشریف لائے اور پوچھا کہ ابوعبدالرحمن ( ابومسعود رضی اللہ عنہ ) نے تم سے کون سی حدیث بیان کی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے حدیث بالا ان کے سامنے پیش کردی۔ اس پر انہوں نے کہا کہ انہوں نے سچ بیان کیا ہے۔ میرا ایک ( یہ ودی ) شخص سے کنویں کے معاملے میں جھگڑا ہوا تھا۔ ہم اپناجھگڑا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے گواہ لاو ورنہ دوسرے فریق سے قسم لی جائے گی۔ میں نے عرض کیا پھر یہ تو قسم کھالے گا اور ( جھوٹ بولنے پر ) اسے کچھ پرواہ نہ ہوگی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص جان بوجھ کر کسی کا مال ہڑپ کرنے کے لیے جھوٹی قسم کھائے تو اللہ تعالیٰ سے وہ اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر نہایت غضبناک ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت نازل کی۔ اس کے بعد انہوں نے وہی آیت پڑھی ” جو لوگ اللہ کے عہد اوراپنی قسموں کے ذریعہ تھوڑی پونجی خریدتے ہیں “۔ آیت ولہم عذاب الیم تک۔
تشریح : اس حدیث سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ مدعیٰ علیہ اگر جھوٹی قسم کھاکر کسی کا مال ہڑپ کرجائے تو وہ عنداللہ بہت ہی بڑا مجرم گنہگار ملعون قرار پائے گا اگرچہ قانوناً وہ عدالت سے جھوٹی قسم کھاکر ڈگری حاصل کرچکا ہے مگر اللہ کے نزدیک وہ آگ کے انگارے اپنے پیٹ میں داخل کررہا ہے۔ پس مدعیٰ علیہ کا فرض ہے کہ وہ بہت ہی سوچ سمجھ کر قسم کھائے اوردنیاوی عدالت کے فیصلے کو آخری فیصلہ نہ سمجھے کہ اللہ کی عدالت عالیہ کا معاملہ بہت سخت ہے۔ اس حدیث سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ مدعیٰ علیہ اگر جھوٹی قسم کھاکر کسی کا مال ہڑپ کرجائے تو وہ عنداللہ بہت ہی بڑا مجرم گنہگار ملعون قرار پائے گا اگرچہ قانوناً وہ عدالت سے جھوٹی قسم کھاکر ڈگری حاصل کرچکا ہے مگر اللہ کے نزدیک وہ آگ کے انگارے اپنے پیٹ میں داخل کررہا ہے۔ پس مدعیٰ علیہ کا فرض ہے کہ وہ بہت ہی سوچ سمجھ کر قسم کھائے اوردنیاوی عدالت کے فیصلے کو آخری فیصلہ نہ سمجھے کہ اللہ کی عدالت عالیہ کا معاملہ بہت سخت ہے۔