‌صحيح البخاري - حدیث 2512

كِتَابُ الرَّهْنِ بَابٌ: الرَّهْنُ مَرْكُوبٌ وَمَحْلُوبٌ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّاءُ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الرَّهْنُ يُرْكَبُ بِنَفَقَتِهِ، إِذَا كَانَ مَرْهُونًا، وَلَبَنُ الدَّرِّ يُشْرَبُ بِنَفَقَتِهِ، إِذَا كَانَ مَرْهُونًا، وَعَلَى الَّذِي يَرْكَبُ وَيَشْرَبُ النَّفَقَةُ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2512

کتاب: رہن کے بیان میں باب : گروی جانور پر سواری کرنا اس کا دودھ پینا درست ہے ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں زکریا نے خبر دی، انہیں شعبی نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، گروی جانور پر اس کے خرچ کے بدل سواری کی جائے۔ اسی طرح دودھ والے جانور کا جب وہ گروی ہو تو خرچ کے بدل اس کا دودھ پیا جائے اور جو کوئی سواری کرے یا دودھ پئے وہی اس کا خرچ اٹھائے۔
تشریح : شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ، امام ابن قیم رحمہ اللہ اور اصحاب حدیث کا مذہب یہی ہے کہ مرتہن شئی مرہونہ سے نفع اٹھاسکتا ہے۔ جب اس کی درستی اور اصلاح کی خبرگیری کرتا رہے۔ گو مالک نے اس کو اجازت نہ دی ہو اور جمہور فقہاءنے اس کے خلاف کہا ہے کہ مرتہن کو شی مرہونہ سے کوئی فائدہ اٹھانا درست نہیں۔ اہل حدیث کے مذہب پر مرتہن کو مکان مرہونہ بعوض اس کی حفاظت اور صفائی وغیرہ کے رہنا، اسی طرح غلام لونڈی سے بعوض ان کے نان اور پارچہ کے خدمت لینا درست ہوگا۔ جمہور فقہاءاس حدیث سے دلیل لیتے ہیں کہ جس میں قرض سے کچھ فائدہ حاصل کیا جائے وہ سود ہے۔ اہل حدیث کہتے ہیں کہ اول تو یہ حدیث ضعیف ہے، اس صحیح حدیث کے معارضہ کے لائق نہیں۔ دوسرے اس حدیث میں مراد وہ قرضہ ہے جو بلا گروی کے بطور قرض حسنہ ہو۔ طحاوی نے اپنے مذہب کی تائید کے لیے اس حدیث میں یہ تاویل کی ہے کہ مراد یہ ہے کہ راہن اس پر سواری کرے اور اس کا دودھ پیے اور وہی اس کا دانہ چارہ کرے۔ اور ہم کہتے ہیں کہ یہ تاویل ظاہر کے خلاف ہے کیوں کہ مرہونہ جانور مرتہن کے قبضہ میں اور حراست میں رہتا ہے نہ کہ راہن کے۔ اس کے علاوہ حماد بن سلمہ نے اپنی جامع میں حماد بن ابی سلیمان سے جو حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے استاد ہیں، روایت کی، انہوں نے ابراہیم نخعی سے، اسمیں صاف یوں ہے کہ جب کوئی بکری رہن کرے تو مرتہن بقدر اس کے دانے چارے کے اس کا دودھ پیے۔ اگر دودھ اس کے دانے چارے کے بعد بچ رہے تو اس کا لینا درست نہیں وہ ربوا ہے۔ ( از مولانا وحید الزما ںمرحوم ) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ، امام ابن قیم رحمہ اللہ اور اصحاب حدیث کا مذہب یہی ہے کہ مرتہن شئی مرہونہ سے نفع اٹھاسکتا ہے۔ جب اس کی درستی اور اصلاح کی خبرگیری کرتا رہے۔ گو مالک نے اس کو اجازت نہ دی ہو اور جمہور فقہاءنے اس کے خلاف کہا ہے کہ مرتہن کو شی مرہونہ سے کوئی فائدہ اٹھانا درست نہیں۔ اہل حدیث کے مذہب پر مرتہن کو مکان مرہونہ بعوض اس کی حفاظت اور صفائی وغیرہ کے رہنا، اسی طرح غلام لونڈی سے بعوض ان کے نان اور پارچہ کے خدمت لینا درست ہوگا۔ جمہور فقہاءاس حدیث سے دلیل لیتے ہیں کہ جس میں قرض سے کچھ فائدہ حاصل کیا جائے وہ سود ہے۔ اہل حدیث کہتے ہیں کہ اول تو یہ حدیث ضعیف ہے، اس صحیح حدیث کے معارضہ کے لائق نہیں۔ دوسرے اس حدیث میں مراد وہ قرضہ ہے جو بلا گروی کے بطور قرض حسنہ ہو۔ طحاوی نے اپنے مذہب کی تائید کے لیے اس حدیث میں یہ تاویل کی ہے کہ مراد یہ ہے کہ راہن اس پر سواری کرے اور اس کا دودھ پیے اور وہی اس کا دانہ چارہ کرے۔ اور ہم کہتے ہیں کہ یہ تاویل ظاہر کے خلاف ہے کیوں کہ مرہونہ جانور مرتہن کے قبضہ میں اور حراست میں رہتا ہے نہ کہ راہن کے۔ اس کے علاوہ حماد بن سلمہ نے اپنی جامع میں حماد بن ابی سلیمان سے جو حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے استاد ہیں، روایت کی، انہوں نے ابراہیم نخعی سے، اسمیں صاف یوں ہے کہ جب کوئی بکری رہن کرے تو مرتہن بقدر اس کے دانے چارے کے اس کا دودھ پیے۔ اگر دودھ اس کے دانے چارے کے بعد بچ رہے تو اس کا لینا درست نہیں وہ ربوا ہے۔ ( از مولانا وحید الزما ںمرحوم )