‌صحيح البخاري - حدیث 2506

كِتَابُ الشَّرِكَةِ بَابُ الِاشْتِرَاكِ فِي الهَدْيِ وَالبُدْنِ، وَإِذَا أَشْرَكَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي هَدْيِهِ بَعْدَ مَا أَهْدَى صحيح حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ المَلِكِ بْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ، وَعَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، قَالاَ: قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ صُبْحَ رَابِعَةٍ مِنْ ذِي الحِجَّةِ مُهِلِّينَ بِالحَجِّ، لاَ يَخْلِطُهُمْ شَيْءٌ، فَلَمَّا قَدِمْنَا أَمَرَنَا، فَجَعَلْنَاهَا عُمْرَةً وَأَنْ نَحِلَّ إِلَى نِسَائِنَا، فَفَشَتْ فِي ذَلِكَ القَالَةُ قَالَ عَطَاءٌ: فَقَالَ جَابِرٌ: فَيَرُوحُ أَحَدُنَا إِلَى مِنًى، وَذَكَرُهُ يَقْطُرُ مَنِيًّا، فَقَالَ جَابِرٌ بِكَفِّهِ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ خَطِيبًا، فَقَالَ: «بَلَغَنِي أَنَّ أَقْوَامًا يَقُولُونَ كَذَا وَكَذَا، وَاللَّهِ لَأَنَا أَبَرُّ وَأَتْقَى لِلَّهِ مِنْهُمْ، وَلَوْ أَنِّي اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا أَهْدَيْتُ، وَلَوْلاَ أَنَّ مَعِي الهَدْيَ لأَحْلَلْتُ» فَقَامَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هِيَ لَنَا أَوْ لِلْأَبَدِ؟ فَقَالَ: «لاَ، بَلْ لِلْأَبَدِ» قَالَ: وَجَاءَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ أَحَدُهُمَا: يَقُولُ لَبَّيْكَ بِمَا أَهَلَّ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: وَقَالَ الآخَرُ: لَبَّيْكَ بِحَجَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُقِيمَ عَلَى إِحْرَامِهِ، وَأَشْرَكَهُ فِي الهَدْيِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2506

کتاب: شراکت کے مسائل کے بیان میں باب : قربانی کے جانوروں اور اونٹوں میں شرکت اور اگر کوئی مکہ کو قربانی بھیج چکے پھر اس میں کسی کو شریک کرلے تو جائز ہے ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، انہیں عبدالملک بن جریج نے خبر دی، انہیں عطاء نے اور انہیں جابر رضی اللہ عنہ نے اور ( ابن جریج اسی حدیث کی دوسری روایت ) طاوس سے کرتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چوتھی ذی الحجہ کی صبح کو حج کا تلب یہ کہتے ہوئے جس کے ساتھ کوئی اور چیز ( عمرہ ) نہ ملاتے ہوئے ( مکہ میں ) داخل ہوئے۔ جب ہم مکہ پہنچے تو آپ کے حکم سے ہم نے اپنے حج کو عمرہ کرڈالا۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ( عمرہ کے افعال ادا کرنے کے بعد حج کے احرام تک ) ہماری بیویاں ہمارے لیے حلال رہیں گی۔ اس پر لوگوںمیں چرچا ہونے لگا۔ عطاءنے بیان کیا کہ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگ کہنے لگے کیا ہم میں سے کوئی منیٰ اس طرح جائے کہ منی اس کے ذکر سے ٹپک رہی ہو۔ جابر نے ہاتھ سے اشارہ بھی کیا۔ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور فرمایا مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض لوگ اس طرح کی باتیں کررہے ہیں۔ اللہ کی قسم میں ان لوگوں سے زیادہ نیک اور اللہ سے ڈرنے والا ہوں۔ اگر مجھے وہ بات پہلے ہی معلوم ہوتی جو اب معلوم ہوئی ہے تو میں قربانی کے جانور اپنے ساتھ نہ لاتا اور اگر میرے ساتھ قربانی کے جانور نہ ہوتے تو میں بھی احرام کھول دیتا۔ اس پرسراقہ بن مالک بن جعشم کھڑے ہوئے اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہ حکم ( حج کے ایام میں عمرہ ) خاص ہمارے ہی لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ( یمن سے ) آئے۔ اب عطاءاور طاو¿س میں سے ایک تو یوں کہتا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے احرام کے وقت یوں کہا تھا۔ لبیک بما اہل بہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرا یوں کہتا ہے کہ انہوں نے لبیک بحجۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے احرام پر قائم رہیں ( جیسا بھی انہوں نے باندھا ہے ) اور انہیں اپنی قربانی میں شریک کرلیا۔
تشریح : اسی سے باب کا مضمون ثابت ہوا۔ سند میں ابن جریج کا اس حدیث کو عطاءاور طاؤس دونوں سے سننا مذکور ہے۔ حافظ نے کہا میرے نزدیک تو طاؤس سے روایت منقطع ہے کیوں کہ ابن جریج نے مجاہد اور عکرمہ سے نہیں سنا اور طاؤس ان ہی کے ہم عصر ہیں، البتہ عطا سے سنا ہے کیوں کہ عطاءان لوگوں کے دس برس بعد ہوئے تھے۔ ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے قربانی کے لیے63 اونٹ لیے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے 37 اونٹ لائے۔ جملہ سو اونٹ ہوئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کو ان اونٹوں میں شریک کرلیا۔ اسی سے باب کا مضمون ثابت ہوا۔ سند میں ابن جریج کا اس حدیث کو عطاءاور طاؤس دونوں سے سننا مذکور ہے۔ حافظ نے کہا میرے نزدیک تو طاؤس سے روایت منقطع ہے کیوں کہ ابن جریج نے مجاہد اور عکرمہ سے نہیں سنا اور طاؤس ان ہی کے ہم عصر ہیں، البتہ عطا سے سنا ہے کیوں کہ عطاءان لوگوں کے دس برس بعد ہوئے تھے۔ ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے قربانی کے لیے63 اونٹ لیے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے 37 اونٹ لائے۔ جملہ سو اونٹ ہوئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کو ان اونٹوں میں شریک کرلیا۔