‌صحيح البخاري - حدیث 2493

كِتَابُ الشَّرِكَةِ بَابٌ: هَلْ يُقْرَعُ فِي القِسْمَةِ وَالِاسْتِهَامِ فِيهِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَامِرًا، يَقُولُ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَثَلُ القَائِمِ عَلَى حُدُودِ اللَّهِ وَالوَاقِعِ فِيهَا، كَمَثَلِ قَوْمٍ اسْتَهَمُوا عَلَى سَفِينَةٍ، فَأَصَابَ بَعْضُهُمْ أَعْلاَهَا وَبَعْضُهُمْ أَسْفَلَهَا، فَكَانَ الَّذِينَ فِي أَسْفَلِهَا إِذَا اسْتَقَوْا مِنَ المَاءِ مَرُّوا عَلَى مَنْ فَوْقَهُمْ، فَقَالُوا: لَوْ أَنَّا خَرَقْنَا فِي نَصِيبِنَا خَرْقًا وَلَمْ نُؤْذِ مَنْ فَوْقَنَا، فَإِنْ يَتْرُكُوهُمْ وَمَا أَرَادُوا هَلَكُوا جَمِيعًا، وَإِنْ أَخَذُوا عَلَى أَيْدِيهِمْ نَجَوْا، وَنَجَوْا جَمِيعًا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2493

کتاب: شراکت کے مسائل کے بیان میں باب : تقسیم میں قرعہ ڈال کر حصے لےنا ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زکریا نے، کہا میں نے عامر بن شعبہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی حدود پر قائم رہنے والے اور اس میں گھس جانے والے ( یعنی خلاف کرنے والے ) کی مثال ایسے لوگوں کی سی ہے جنہوں نے ایک کشتی کے سلسلے میں قرعہ ڈالا۔ جس کے نتیجہ میں بعض لوگوں کو کشتی کے اوپر کا حصہ اور بعض کو نیچے کا۔ پس جو لوگ نیچے والے تھے، انہیں ( دریا سے ) پانی لینے کے لیے اوپر والوں کے اوپر سے گزرنا پڑتا۔ انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ہم اپنے ہی حصہ میں ایک سوراخ کرلیں تاکہ اوپر والوں کو ہم کوئی تکلیف نہ دیں۔ اب اگر اوپر والے بھی نیچے والوں کو من مانی کرنے دیں گے تو کشتی والے تمام ہلاک ہوجائیں گے اور اگر اوپر والے نیچے والوں کا ہاتھ پکڑلیں تو یہ خود بھی بچیں گے اور ساری کشتی بھی بچ جائے گی۔
تشریح : اس حدیث میں جہاںکشتی میں جگہ حاصل کرنے کے لیے قرعہ اندازی کا ذکر کیاگیا۔ اسی سے مقصود باب ثابت ہوا ہے۔ یوں یہ حدیث بہت سے فوائد پر مشتمل ہے۔ خاص طور پر نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا کیوں ضروری ہے؟ اسی سوال پر اس میں روشنی ڈالی گئی ہے کہ دنیا کی مثال ایک کشتی کی سی ہے۔ جس میں سوار ہونے والے افراد میں سے ایک فرد کی غلطی جو کشتی سے متعلق ہو سارے افراد ہی کو لے ڈوب سکتی ہے۔ قرآن مجید میں یہی مضمون اس طور پر بیان ہوا۔ واتقوا فتن لا تصےبن الذےن ظلموا منکم خاص ( الانفال: 25 ) یعنی فتنہ سے بچنے کی کوشش کرو جو اگر وقوع میں آگیا تو وہ خاص ظالموں ہی پر نہیں پڑے گا بلکہ ان کے ساتھ بہت سے بے گناہ بھی پس جائیں گے۔ جیسے حدیث ہٰذا میں بطور مثال نیچے والوں کا ذکر کیاگیا کہ اگر اوپر والے نیچے والوں کو کشتی کے نیچے سورا کرنے سے نہیں روکیں گے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ نیچے والا حصہ پانی سے بھر جائے گا اور نیچے والوں کے ساتھ اوپر والے بھی ڈوبیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ولتکن منکم ام ےدعون الي الخےر و یامرون بالمعروف وےنھون عن المنکر ( آل عمران: 105 ) یعنی اے مسلمانو! تم میں سے ایک جماعت ایسی مقرر ہونی چاہئے جو لوگوں کو بھلائی کا حکم کرتی رہے اور برائیوں سے روکتی رہے۔ آیت ہٰذا کی بنا پر جملہ اہل اسلام پر فرض ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے ایک جماعت خاص مقررکریں۔ الحمد للہ حکومت سعودیہ میں یہ محکمہ اسی نام سے قائم ہے اور پوری مملکت میں اس کی شاخیں ہیں جو یہ فرض انجام دے رہی ہیں۔ ضرورت ہے کہ اجتماعی طور پر ہر جگہ مسلمان ایسے ادارے قائم کرکے عوام کی فلاح و بہبود کا کام انجام دیا کریں۔ خلاصہ یہ کہ تقسیم کے لیے قرعہ اندازی ایک بہترین طریقہ ہے جس میں شرکاءمیں سے کسی کو بھی انکار کی گنجائش نہیں رہ سکتی۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں: و مطابقۃ الحدیث للترجمۃ غیر خفےۃ و فیہ و جوب الصبر علی اذی الجار اذا خشی وقوع ماھو اشد ضررا وانہ لیس لصاحب السفل ان یحدث علی صاحب العلوما یضربہ و انہ ان احدث علیہ ضررالزمہ اصلاحہ و ان لصاحب العلوم منعہ من الضرر و فیہ جواز قسمۃ العقار المتفاوت بالقرعۃ قال ابن بطال و العلماءمتفقون علی القول بالقرعۃ الا الکوفےین فانھم قالوا لا معنی لہا لانھا تشبہ الازلام التی نہی اللہ عنہا ( قسطلانی ) حدیث کی باب سے مطابقت ظاہر ہے اور اس سے پڑوسی کی تکلیف پر صبر کرنا بطور وجوب ثابت ہوا۔ جب عدم صبر کی صورت میں اس سے بھی کسی بڑی مصیبت کے آنے کا خطرہ ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ نیچے والے کے لیے جائز نہیں کہ اوپر والے کے لیے کوئی ضرر کا کام کرے۔ اگر وہ ایسا کربیٹھے تو اس کو اس کی درستگی واجب ہے اور اوپر والے کو حق ہے کہ وہ ایسے ضرر کے کام سے اس کو روکے اور سامان و اسباب متفرقہ کا قرعہ اندازی سے تقسیم کرنا بھی ثابت ہوا۔ ابن بطال نے کہا علماءکا قرعہ کے جواز پر اتفاق ہے سوائے اہل کوفہ کے۔ وہ کہتے ہیں کہ قرعہ اندازی ان تیروں کے مشابہ ہی ہے جو کفار مکہ بطور فال نکالا کرتے تھے۔ اس لیے یہ جائز نہیں ہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ازلام سے منع کیا ہے۔ مترجم کہتا ہے کہ اہل کوفہ کا یہ قیاس باطل ہے۔ ازلام اور قرعہ اندازی میں بہت فرق ہے اور جب قرعہ کا ثبوت صحیح حدیث سے موجود ہے تو اس کو ازلام سے تشبیہ دینا صحیح نہیں ہے۔ اس حدیث میں جہاںکشتی میں جگہ حاصل کرنے کے لیے قرعہ اندازی کا ذکر کیاگیا۔ اسی سے مقصود باب ثابت ہوا ہے۔ یوں یہ حدیث بہت سے فوائد پر مشتمل ہے۔ خاص طور پر نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا کیوں ضروری ہے؟ اسی سوال پر اس میں روشنی ڈالی گئی ہے کہ دنیا کی مثال ایک کشتی کی سی ہے۔ جس میں سوار ہونے والے افراد میں سے ایک فرد کی غلطی جو کشتی سے متعلق ہو سارے افراد ہی کو لے ڈوب سکتی ہے۔ قرآن مجید میں یہی مضمون اس طور پر بیان ہوا۔ واتقوا فتن لا تصےبن الذےن ظلموا منکم خاص ( الانفال: 25 ) یعنی فتنہ سے بچنے کی کوشش کرو جو اگر وقوع میں آگیا تو وہ خاص ظالموں ہی پر نہیں پڑے گا بلکہ ان کے ساتھ بہت سے بے گناہ بھی پس جائیں گے۔ جیسے حدیث ہٰذا میں بطور مثال نیچے والوں کا ذکر کیاگیا کہ اگر اوپر والے نیچے والوں کو کشتی کے نیچے سورا کرنے سے نہیں روکیں گے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ نیچے والا حصہ پانی سے بھر جائے گا اور نیچے والوں کے ساتھ اوپر والے بھی ڈوبیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ولتکن منکم ام ےدعون الي الخےر و یامرون بالمعروف وےنھون عن المنکر ( آل عمران: 105 ) یعنی اے مسلمانو! تم میں سے ایک جماعت ایسی مقرر ہونی چاہئے جو لوگوں کو بھلائی کا حکم کرتی رہے اور برائیوں سے روکتی رہے۔ آیت ہٰذا کی بنا پر جملہ اہل اسلام پر فرض ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے ایک جماعت خاص مقررکریں۔ الحمد للہ حکومت سعودیہ میں یہ محکمہ اسی نام سے قائم ہے اور پوری مملکت میں اس کی شاخیں ہیں جو یہ فرض انجام دے رہی ہیں۔ ضرورت ہے کہ اجتماعی طور پر ہر جگہ مسلمان ایسے ادارے قائم کرکے عوام کی فلاح و بہبود کا کام انجام دیا کریں۔ خلاصہ یہ کہ تقسیم کے لیے قرعہ اندازی ایک بہترین طریقہ ہے جس میں شرکاءمیں سے کسی کو بھی انکار کی گنجائش نہیں رہ سکتی۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں: و مطابقۃ الحدیث للترجمۃ غیر خفےۃ و فیہ و جوب الصبر علی اذی الجار اذا خشی وقوع ماھو اشد ضررا وانہ لیس لصاحب السفل ان یحدث علی صاحب العلوما یضربہ و انہ ان احدث علیہ ضررالزمہ اصلاحہ و ان لصاحب العلوم منعہ من الضرر و فیہ جواز قسمۃ العقار المتفاوت بالقرعۃ قال ابن بطال و العلماءمتفقون علی القول بالقرعۃ الا الکوفےین فانھم قالوا لا معنی لہا لانھا تشبہ الازلام التی نہی اللہ عنہا ( قسطلانی ) حدیث کی باب سے مطابقت ظاہر ہے اور اس سے پڑوسی کی تکلیف پر صبر کرنا بطور وجوب ثابت ہوا۔ جب عدم صبر کی صورت میں اس سے بھی کسی بڑی مصیبت کے آنے کا خطرہ ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ نیچے والے کے لیے جائز نہیں کہ اوپر والے کے لیے کوئی ضرر کا کام کرے۔ اگر وہ ایسا کربیٹھے تو اس کو اس کی درستگی واجب ہے اور اوپر والے کو حق ہے کہ وہ ایسے ضرر کے کام سے اس کو روکے اور سامان و اسباب متفرقہ کا قرعہ اندازی سے تقسیم کرنا بھی ثابت ہوا۔ ابن بطال نے کہا علماءکا قرعہ کے جواز پر اتفاق ہے سوائے اہل کوفہ کے۔ وہ کہتے ہیں کہ قرعہ اندازی ان تیروں کے مشابہ ہی ہے جو کفار مکہ بطور فال نکالا کرتے تھے۔ اس لیے یہ جائز نہیں ہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ازلام سے منع کیا ہے۔ مترجم کہتا ہے کہ اہل کوفہ کا یہ قیاس باطل ہے۔ ازلام اور قرعہ اندازی میں بہت فرق ہے اور جب قرعہ کا ثبوت صحیح حدیث سے موجود ہے تو اس کو ازلام سے تشبیہ دینا صحیح نہیں ہے۔