كِتَابُ المَظَالِمِ وَالغَصْبِ بَابُ مَنْ عَقَلَ بَعِيرَهُ عَلَى البَلاَطِ أَوْ بَابِ المَسْجِدِ صحيح حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْمُتَوَكِّلِ النَّاجِيُّ قَالَ أَتَيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ فَدَخَلْتُ إِلَيْهِ وَعَقَلْتُ الْجَمَلَ فِي نَاحِيَةِ الْبَلَاطِ فَقُلْتُ هَذَا جَمَلُكَ فَخَرَجَ فَجَعَلَ يُطِيفُ بِالْجَمَلِ قَالَ الثَّمَنُ وَالْجَمَلُ لَكَ
کتاب: ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں
باب : مسجد کے دروازے پر جو پتھر بچھے ہوتے ہیں وہاں یا دورازے پر اونٹ باندھ دینا
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعقیل نے بیان کیا، ان سے ابوالمتوکل ناجی نے بیان کیا کہ میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف رکھتے تھے۔ اس لیے میں بھی مسجد کے اندر چلا گیا۔ البتہ اونٹ بلاط کے ایک کنارے پر باندھ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے عرض کیا کہ حضور ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اونٹ حاضر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور اونٹ کے چاروں طرف ٹہلنے لگے۔ پھر فرمایا کہ قیمت بھی لے اور اونٹ بھی لے جا۔
تشریح :
مسجد نبوی سے بازار تک پتھروں کا فرش تھا۔ اسی کو بلاط کہتے تھے۔ اسی جگہ اونٹ باندھنا مذکو رہے اور دورازے کو اسی پر قیاس کیا گیا ہے۔ حافظ نے کہا اس حدیث کے دوسرے طریق میں مسجد کے دوازے کا بھی ذکر ہے۔ امام بخاری نے اسی طرف اشارہ کیا ہے۔
مسجد نبوی سے بازار تک پتھروں کا فرش تھا۔ اسی کو بلاط کہتے تھے۔ اسی جگہ اونٹ باندھنا مذکو رہے اور دورازے کو اسی پر قیاس کیا گیا ہے۔ حافظ نے کہا اس حدیث کے دوسرے طریق میں مسجد کے دوازے کا بھی ذکر ہے۔ امام بخاری نے اسی طرف اشارہ کیا ہے۔