‌صحيح البخاري - حدیث 247

كِتَابُ الوُضُوءِ بَابُ فَضْلِ مَنْ بَاتَ عَلَى الوُضُوءِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنِ البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَتَيْتَ مَضْجَعَكَ، فَتَوَضَّأْ وُضُوءَكَ لِلصَّلاَةِ، ثُمَّ اضْطَجِعْ عَلَى شِقِّكَ الأَيْمَنِ، ثُمَّ قُلْ: اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ، وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ، وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ، رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ، لاَ مَلْجَأَ وَلاَ مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ، اللَّهُمَّ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ، وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ، فَإِنْ مُتَّ مِنْ لَيْلَتِكَ، فَأَنْتَ عَلَى [ص:59] الفِطْرَةِ، وَاجْعَلْهُنَّ آخِرَ مَا تَتَكَلَّمُ بِهِ . قَالَ: فَرَدَّدْتُهَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا بَلَغْتُ: اللَّهُمَّ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ، قُلْتُ: وَرَسُولِكَ، قَالَ: «لاَ، وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 247

کتاب: وضو کے بیان میں باب: سوتے وقت وضو کرنے کی فضیلت ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انھوں نے کہا ہمیں سفیان نے منصور کے واسطے سے خبر دی، انھوں نے سعد بن عبیدہ سے، وہ براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم اپنے بستر پر لیٹنے آؤ تو اس طرح وضو کرو جس طرح نماز کے لیے کرتے ہو۔ پھر داہنی کروٹ پر لیٹ کر یوں کہو “ اے اللہ! میں نے اپنا چہرہ تیری طرف جھکا دیا۔ اپنا معاملہ تیرے ہی سپرد کر دیا۔ میں نے تیرے ثواب کی توقع اور تیرے عذاب کے ڈر سے تجھے ہی پشت پناہ بنا لیا۔ تیرے سوا کہیں پناہ اور نجات کی جگہ نہیں۔ اے اللہ! جو کتاب تو نے نازل کی میں اس پر ایمان لایا۔ جو نبی تو نے بھیجا میں اس پر ایمان لایا۔ ” تو اگر اس حالت میں اسی رات مر گیا تو فطرت پر مرے گا اور اس دعا کو سب باتوں کے اخیر میں پڑھ۔ حضرت براء کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس دعا کو دوبارہ پڑھا۔ جب میں آمنت بکتابک الذی انزلت پر پہنچا تو میں نے ورسولک ( کا لفظ ) کہہ دیا۔ آپ نے فرمایا نہیں ( یوں کہو ) ونبیک الذی ارسلت۔
تشریح : سیدالمرسلین حضرت امام بخاری قدس سرہ نے کتاب الوضوء کی آیت کریمہ اذا قمتم الی الصلوۃ ( المائدہ: 6 ) سے شروع فرمایا تھا اور اب کتاب الوضو کو سوتے وقت وضوکرنے کی فضیلت پر ختم فرمایا ہے۔ اس ارتباط کے لیے حضرت امام قدس سرہ کی نظر غائر بہت سے امور پر ہے اور اشارہ کرنا ہے کہ ایک مرد مومن کی صبح اور شام، ابتدا وانتہا، بیداری وشب باشی سب کچھ باوضو ذکرالٰہی پر ہونی چاہئیے۔ اور ذکر الٰہی بھی عین اسی نہج اسی طور طریقہ پر ہو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلیم فرمودہ ہے۔ اس سے اگر ذرا بھی ہٹ کر دوسرا راستہ اختیار کیاگیا تووہ عنداللہ مقبول نہ ہوگا۔ جیسا کہ یہاں مذکو رہے کہ رات کو سوتے وقت کی دعائے مذکورہ میں صحابی نے آپ کے تعلیم فرمودہ لفظ کو ذرا بدل دیا تو آپ نے فوراً اسے اس کی کمی وبیشی کو گوارا نہیں فرمایا۔ آیت کریمہ یآیہا الذین آمنوا لاتقدموا بین یدی اللہ ورسولہ ( الحجرات: 1 ) کا یہی تقاضا اور دعوت اہل حدیث کا یہی خلاصہ ہے۔ تعجب ہے ان مقلدین جامدین پر جو محض اپنے مزعومہ مسالک کی حمایت کے لیے حضرت سیدالمحدثین امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی درایت وفقاہت پر لب کشائی کرتے ہیں اور آپ کی تخفیف وتنقیص کرکے اپنی دریدہ ذہنی کا ثبوت دیتے ہیں۔ کتاب الوضو ختم کرتے ہوئے ہم پھر ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں کہ فن حدیث شریف میں حضرت امام بخاری قدس سرہ امت کے اندر وہ مقام رکھتے ہیں جہاں آپ کا کوئی مثیل ونظیر نہیں ہے۔ آپ کی جامع الصحیح یعنی صحیح بخاری وہ کتاب ہے جسے امت نے بالاتفاق اصح الکتب بعدکتاب اللہ قراردیا ہے۔ ساتھ ہی یہ حقیقت بھی ظاہر ہے کہ ائمہ مجتہدین رحمۃ اللہ علیہم کا بھی امت میں ایک خصوصی مقام ہے ان کی بھی ادنیٰ تحقیر گناہ کبیرہ ہے۔ سب کو اپنے اپنے درجہ پر رکھنا اور سب کی عزت کرنا تقاضائے ایمان ہے۔ان میں سے کس کو کس پر فضیلت دی جائے اور اس کے لیے دفاتر سیاہ کئے جائیں یہ ایک خبط ہے۔ جو اس چودہویں صدی میں بعض مقلدین جامدین کو ہو گیا ہے۔ اللہ پاک نے پیغمبروں کے متعلق بھی صاف فرمادیا ہے۔ تلک الرسل فضلنا بعضہم علی بعض ( البقرۃ: 253 ) پھر ائمہ کرام واولیائے عظام ومحدثین ذوی الاحترام کا توذکر ہی کیا ہے۔ ان کے متعلق یہی اصول مدنظر رکھنا ہوگا۔ ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است یااللہ! کس منہ سے تیرا شکرادا کروں کہ تونے مجھ ناچیز حقیر فقیر گنہگار شرمسار ادنیٰ ترین بندے کو اپنے حبیب پاک گنبد خضراءکے مکین صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مقدس بابرکت کتاب کی خدمت کے لیے توفیق عطا فرمائی، یہ فضل تیرامحض وکرم ہے ورنہ من آنم کہ من مولائے کریم! اس مقدس کتاب کے ترجمہ وتشریحات میں نہ معلوم مجھ سے کس قدر لغزشیں ہوئی ہوں گی۔ کہاں کہاں میرا قلم جادئہ اعتدال سے ہٹ گیا ہوگا۔ الحمدللہ! کہ آج شروع ماہ جمادی الثانی 1387ھ میں بخاری شریف کے پہلے پارہ کے ترجمہ وتشریحات سے فراغت حاصل ہوئی۔ اللہ پاک پوری کتاب کا ترجمہ وتشریحات مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین اور قدر دانوں کو اس سے ہدایت اور ازدیاد ایمان نصیب کرے۔آمین۔ سیدالمرسلین حضرت امام بخاری قدس سرہ نے کتاب الوضوء کی آیت کریمہ اذا قمتم الی الصلوۃ ( المائدہ: 6 ) سے شروع فرمایا تھا اور اب کتاب الوضو کو سوتے وقت وضوکرنے کی فضیلت پر ختم فرمایا ہے۔ اس ارتباط کے لیے حضرت امام قدس سرہ کی نظر غائر بہت سے امور پر ہے اور اشارہ کرنا ہے کہ ایک مرد مومن کی صبح اور شام، ابتدا وانتہا، بیداری وشب باشی سب کچھ باوضو ذکرالٰہی پر ہونی چاہئیے۔ اور ذکر الٰہی بھی عین اسی نہج اسی طور طریقہ پر ہو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلیم فرمودہ ہے۔ اس سے اگر ذرا بھی ہٹ کر دوسرا راستہ اختیار کیاگیا تووہ عنداللہ مقبول نہ ہوگا۔ جیسا کہ یہاں مذکو رہے کہ رات کو سوتے وقت کی دعائے مذکورہ میں صحابی نے آپ کے تعلیم فرمودہ لفظ کو ذرا بدل دیا تو آپ نے فوراً اسے اس کی کمی وبیشی کو گوارا نہیں فرمایا۔ آیت کریمہ یآیہا الذین آمنوا لاتقدموا بین یدی اللہ ورسولہ ( الحجرات: 1 ) کا یہی تقاضا اور دعوت اہل حدیث کا یہی خلاصہ ہے۔ تعجب ہے ان مقلدین جامدین پر جو محض اپنے مزعومہ مسالک کی حمایت کے لیے حضرت سیدالمحدثین امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی درایت وفقاہت پر لب کشائی کرتے ہیں اور آپ کی تخفیف وتنقیص کرکے اپنی دریدہ ذہنی کا ثبوت دیتے ہیں۔ کتاب الوضو ختم کرتے ہوئے ہم پھر ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں کہ فن حدیث شریف میں حضرت امام بخاری قدس سرہ امت کے اندر وہ مقام رکھتے ہیں جہاں آپ کا کوئی مثیل ونظیر نہیں ہے۔ آپ کی جامع الصحیح یعنی صحیح بخاری وہ کتاب ہے جسے امت نے بالاتفاق اصح الکتب بعدکتاب اللہ قراردیا ہے۔ ساتھ ہی یہ حقیقت بھی ظاہر ہے کہ ائمہ مجتہدین رحمۃ اللہ علیہم کا بھی امت میں ایک خصوصی مقام ہے ان کی بھی ادنیٰ تحقیر گناہ کبیرہ ہے۔ سب کو اپنے اپنے درجہ پر رکھنا اور سب کی عزت کرنا تقاضائے ایمان ہے۔ان میں سے کس کو کس پر فضیلت دی جائے اور اس کے لیے دفاتر سیاہ کئے جائیں یہ ایک خبط ہے۔ جو اس چودہویں صدی میں بعض مقلدین جامدین کو ہو گیا ہے۔ اللہ پاک نے پیغمبروں کے متعلق بھی صاف فرمادیا ہے۔ تلک الرسل فضلنا بعضہم علی بعض ( البقرۃ: 253 ) پھر ائمہ کرام واولیائے عظام ومحدثین ذوی الاحترام کا توذکر ہی کیا ہے۔ ان کے متعلق یہی اصول مدنظر رکھنا ہوگا۔ ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است یااللہ! کس منہ سے تیرا شکرادا کروں کہ تونے مجھ ناچیز حقیر فقیر گنہگار شرمسار ادنیٰ ترین بندے کو اپنے حبیب پاک گنبد خضراءکے مکین صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مقدس بابرکت کتاب کی خدمت کے لیے توفیق عطا فرمائی، یہ فضل تیرامحض وکرم ہے ورنہ من آنم کہ من مولائے کریم! اس مقدس کتاب کے ترجمہ وتشریحات میں نہ معلوم مجھ سے کس قدر لغزشیں ہوئی ہوں گی۔ کہاں کہاں میرا قلم جادئہ اعتدال سے ہٹ گیا ہوگا۔ الحمدللہ! کہ آج شروع ماہ جمادی الثانی 1387ھ میں بخاری شریف کے پہلے پارہ کے ترجمہ وتشریحات سے فراغت حاصل ہوئی۔ اللہ پاک پوری کتاب کا ترجمہ وتشریحات مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین اور قدر دانوں کو اس سے ہدایت اور ازدیاد ایمان نصیب کرے۔آمین۔