كِتَابُ المَظَالِمِ وَالغَصْبِ بَابُ الغُرْفَةِ وَالعُلِّيَّةِ المُشْرِفَةِ وَغَيْرِ المُشْرِفَةِ فِي السُّطُوحِ وَغَيْرِهَا صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ لَمْ أَزَلْ حَرِيصًا عَلَى أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ الْمَرْأَتَيْنِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَيْنِ قَالَ اللَّهُ لَهُمَا إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا فَحَجَجْتُ مَعَه فَعَدَلَ وَعَدَلْتُ مَعَهُ بِالْإِدَاوَةِ فَتَبَرَّزَ حَتَّى جَاءَ فَسَكَبْتُ عَلَى يَدَيْهِ مِنْ الْإِدَاوَةِ فَتَوَضَّأَ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَنْ الْمَرْأَتَانِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَانِ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُمَا إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا فَقَالَ وَا عَجَبِي لَكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ عَائِشَةُ وَحَفْصَةُ ثُمَّ اسْتَقْبَلَ عُمَرُ الْحَدِيثَ يَسُوقُهُ فَقَالَ إِنِّي كُنْتُ وَجَارٌ لِي مِنْ الْأَنْصَارِ فِي بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ وَهِيَ مِنْ عَوَالِي الْمَدِينَةِ وَكُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَنْزِلُ يَوْمًا وَأَنْزِلُ يَوْمًا فَإِذَا نَزَلْتُ جِئْتُهُ مِنْ خَبَرِ ذَلِكَ الْيَوْمِ مِنْ الْأَمْرِ وَغَيْرِهِ وَإِذَا نَزَلَ فَعَلَ مِثْلَهُ وَكُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ نَغْلِبُ النِّسَاءَ فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى الْأَنْصَارِ إِذَا هُمْ قَوْمٌ تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَأْخُذْنَ مِنْ أَدَبِ نِسَاءِ الْأَنْصَارِ فَصِحْتُ عَلَى امْرَأَتِي فَرَاجَعَتْنِي فَأَنْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي فَقَالَتْ وَلِمَ تُنْكِرُ أَنْ أُرَاجِعَكَ فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ليُرَاجِعْنَهُ وَإِنَّ إِحْدَاهُنَّ لَتَهْجُرُهُ الْيَوْمَ حَتَّى اللَّيْلِ فَأَفْزَعَنِي فَقُلْتُ خَابَتْ مَنْ فَعَلَ مِنْهُنَّ بِعَظِيمٍ ثُمَّ جَمَعْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَقُلْتُ أَيْ حَفْصَةُ أَتُغَاضِبُ إِحْدَاكُنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيَوْمَ حَتَّى اللَّيْلِ فَقَالَتْ نَعَمْ فَقُلْتُ خَابَتْ وَخَسِرَتْ أَفَتَأْمَنُ أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ لِغَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَهْلِكِينَ لَا تَسْتَكْثِرِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا تُرَاجِعِيهِ فِي شَيْءٍ وَلَا تَهْجُرِيهِ وَاسْأَلِينِي مَا بَدَا لَكِ وَلَا يَغُرَّنَّكِ أَنْ كَانَتْ جَارَتُكَ هِيَ أَوْضَأَ مِنْكِ وَأَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ عَائِشَةَ وَكُنَّا تَحَدَّثْنَا أَنَّ غَسَّانَ تُنْعِلُ النِّعَالَ لِغَزْوِنَا فَنَزَلَ صَاحِبِي يَوْمَ نَوْبَتِهِ فَرَجَعَ عِشَاءً فَضَرَبَ بَابِي ضَرْبًا شَدِيدًا وَقَالَ أَنَائِمٌ هُوَ فَفَزِعْتُ فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ وَقَالَ حَدَثَ أَمْرٌ عَظِيمٌ قُلْتُ مَا هُوَ أَجَاءَتْ غَسَّانُ قَالَ لَا بَلْ أَعْظَمُ مِنْهُ وَأَطْوَلُ طَلَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ قَالَ قَدْ خَابَتْ حَفْصَةُ وَخَسِرَتْ كُنْتُ أَظُنُّ أَنَّ هَذَا يُوشِكُ أَنْ يَكُونَ فَجَمَعْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي فَصَلَّيْتُ صَلَاةَ الْفَجْرِ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ مَشْرُبَةً لَهُ فَاعْتَزَلَ فِيهَا فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَإِذَا هِيَ تَبْكِي قُلْتُ مَا يُبْكِيكِ أَوَلَمْ أَكُنْ حَذَّرْتُكِ أَطَلَّقَكُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ لَا أَدْرِي هُوَ ذَا فِي الْمَشْرُبَةِ فَخَرَجْتُ فَجِئْتُ الْمِنْبَرَ فَإِذَا حَوْلَهُ رَهْطٌ يَبْكِي بَعْضُهُمْ فَجَلَسْتُ مَعَهُمْ قَلِيلًا ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ فَجِئْتُ الْمَشْرُبَةَ الَّتِي هُوَ فِيهَا فَقُلْتُ لِغُلَامٍ لَهُ أَسْوَدَ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ فَدَخَلَ فَكَلَّمَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ فَانْصَرَفْتُ حَتَّى جَلَسْتُ مَعَ الرَّهْطِ الَّذِينَ عِنْدَ الْمِنْبَرِ ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ فَجِئْتُ فَذَكَرَ مِثْلَهُ فَجَلَسْتُ مَعَ الرَّهْطِ الَّذِينَ عِنْدَ الْمِنْبَرِ ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ فَجِئْتُ الْغُلَامَ فَقُلْتُ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ فَذَكَرَ مِثْلَهُ فَلَمَّا وَلَّيْتُ مُنْصَرِفًا فَإِذَا الْغُلَامُ يَدْعُونِي قَالَ أَذِنَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ فَإِذَا هُوَ مُضْطَجِعٌ عَلَى رِمَالِ حَصِيرٍ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ فِرَاشٌ قَدْ أَثَّرَ الرِّمَالُ بِجَنْبِهِ مُتَّكِئٌ عَلَى وِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ ثُمَّ قُلْتُ وَأَنَا قَائِمٌ طَلَّقْتَ نِسَاءَكَ فَرَفَعَ بَصَرَهُ إِلَيَّ فَقَالَ لَا ثُمَّ قُلْتُ وَأَنَا قَائِمٌ أَسْتَأْنِسُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ رَأَيْتَنِي وَكُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ نَغْلِبُ النِّسَاءَ فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى قَوْمٍ تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ فَذَكَرَهُ فَتَبَسَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قُلْتُ لَوْ رَأَيْتَنِي وَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَقُلْتُ لَا يَغُرَّنَّكِ أَنْ كَانَتْ جَارَتُكِ هِيَ أَوْضَأَ مِنْكِ وَأَحَبَّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ عَائِشَةَ فَتَبَسَّمَ أُخْرَى فَجَلَسْتُ حِينَ رَأَيْتُهُ تَبَسَّمَ ثُمَّ رَفَعْتُ بَصَرِي فِي بَيْتِهِ فَوَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ فِيهِ شَيْئًا يَرُدُّ الْبَصَرَ غَيْرَ أَهَبَةٍ ثَلَاثَةٍ فَقُلْتُ ادْعُ اللَّهَ فَلْيُوَسِّعْ عَلَى أُمَّتِكَ فَإِنَّ فَارِسَ وَالرُّومَ وُسِّعَ عَلَيْهِمْ وَأُعْطُوا الدُّنْيَا وَهُمْ لَا يَعْبُدُونَ اللَّهَ وَكَانَ مُتَّكِئًا فَقَالَ أَوَفِي شَكٍّ أَنْتَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ أُولَئِكَ قَوْمٌ عُجِّلَتْ لَهُمْ طَيِّبَاتُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتَغْفِرْ لِي فَاعْتَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ الْحَدِيثِ حِينَ أَفْشَتْهُ حَفْصَةُ إِلَى عَائِشَةَ وَكَانَ قَدْ قَالَ مَا أَنَا بِدَاخِلٍ عَلَيْهِنَّ شَهْرًا مِنْ شِدَّةِ مَوْجِدَتِهِ عَلَيْهِنَّ حِينَ عَاتَبَهُ اللَّهُ فَلَمَّا مَضَتْ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ فَبَدَأَ بِهَا فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ إِنَّكَ أَقْسَمْتَ أَنْ لَا تَدْخُلَ عَلَيْنَا شَهْرًا وَإِنَّا أَصْبَحْنَا لِتِسْعٍ وَعِشْرِينَ لَيْلَةً أَعُدُّهَا عَدًّا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ وَكَانَ ذَلِكَ الشَّهْرُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ قَالَتْ عَائِشَةُ فَأُنْزِلَتْ آيَةُ التَّخْيِيرِ فَبَدَأَ بِي أَوَّلَ امْرَأَةٍ فَقَالَ إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا وَلَا عَلَيْكِ أَنْ لَا تَعْجَلِي حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ قَالَتْ قَدْ أَعْلَمُ أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَكُونَا يَأْمُرَانِي بِفِرَاقِكَ ثُمَّ قَالَ إِنَّ اللَّهَ قَالَ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِلَى قَوْلِهِ عَظِيمًا قُلْتُ أَفِي هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ ثُمَّ خَيَّرَ نِسَاءَهُ فَقُلْنَ مِثْلَ مَا قَالَتْ عَائِشَةُ
کتاب: ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں
باب : اونچے اور پست بالاخانوں میں چھت وغیرہ پر رہنا جائز ہے نیز جھروکے اور روشندان بنانا
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے اور ان سے ابن شہاب نے کہ مجھے عبید اللہ بن عبداللہ بن ابی ثور نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں ہمیشہ اس بات کا آروز مند رہتا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دو بیویوں کے نام پوچھوں جن کے بارے میں اللہ تعالی ٰنے ( سورہ تحریم میں ) فرمایا ہے ” اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرو ( تو بہتر ہے ) کہ تمہارے دل بگڑ گئے ہیں۔ “ پھر میں ان کے ساتھ حج کو گیا۔ عمر رضی اللہ عنہ راستے میں قضائے حاجت کے لیے ہٹے تو میں ان کے ساتھ ( پانی کا ایک ) چھاگل لے کر گیا۔ پھر وہ قضائے حاجت کے لیے چلے گئے۔ اور جب واپس آئے تو میں نے ان کے دونوں ہاتھوں پر چھاگل سے پانی ڈالا۔ اور انہوں نے وضو کیا، پھر میں نے پوچھا، یا امیر المومنین ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں وہ دو خواتین کون سی ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ” تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرو “ انہوں نے فرمایا، ابن عباس ! تم پر حیرت ہے۔ وہ تو عائشہ اور حفصہ ( رضی اللہ عنہما ) ہیں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ میری طرف متوجہ ہو کر پورا واقعہ بیان کرنے لگے۔ آپ نے بتلایا کہ بنوامیہ بن زید کے قبیلے میں جو مدینہ سے ملا ہوا تھا۔ میں اپنے ایک انصاری پڑوسی کے ساتھ رہتا تھا۔ ہم دونوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کی باری مقرر کر رکھی تھی۔ ایک دن وہ حاضر ہوتے اور ایک دن میں۔ جب میں حاضری دیتا تو اس دن کی تمام خبریں وغیرہ لاتا۔ ( اور ان کو سناتا ) اور جب وہ حاضر ہوتے تو وہ بھی اسی طرح کرتے۔ ہم قریش کے لوگ ( مکہ میں ) اپنی عورتوں پر غالب رہا کرتے تھے۔ لیکن جب ہم ( ہجرت کرکے ) انصار کے یہاں آئے تو انہیں دیکھا کہ ان کی عورتیں خود ان پر غالب تھیں۔ ہماری عورتوں نے بھی ان کا طریقہ اختیار کرنا شروع کر دیا۔ میں نے ایک دن اپنی بیوی کو ڈانٹا تو انہوں نے بھی اس کا جواب دیا۔ ان کا یہ جواب مجھے ناگوار معلوم ہوا۔ لیکن انہوں نے کہا کہ میں اگر جواب دیتی ہوں تو تمہیں ناگواری کیوں ہوتی ہے۔ قسم اللہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج تک آپ کو جواب دے دیتی ہیں اور بعض بیویاں تو آپ سے پورے دن اور پوری رات خفا رہتی ہیں۔ اس بات سے میں بہت گھبرایا اور میں نے کہا کہ ان میں سے جس نے بھی ایسا کیا ہوگا وہ بہت بڑے نقصان اور خسارے میں ہے۔ اس کے بعد میں نے کپڑے پہنے اور حفصہ رضی اللہ عنہ ( حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی اور ام المومنین ) کے پاس پہنچا اور کہا اے حفصہ ! کیا تم میں سے کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پورے دن رات تک غصہ رہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہاں ! میں بول اٹھا کہ پھر تو وہ تباہی اور نقصان میں رہیں۔ کیا تمہیں اس سے امن ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خفگی کی وجہ سے ( تم پر ) غصہ ہو جاے اور تم ہلاک ہو جاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ چیزوں کا مطالبہ ہرگز نہ کیا کرو، نہ کسی معاملہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات کا جواب دو اور نہ آپ پر خفگی کا اظہار ہونے دو، البتہ جس چیز کی تمہیں ضرورت ہو، وہ مجھ سے مانگ لیا کرو، کسی خود فریبی میں مبتلا نہ رہنا، تمہاری یہ پڑوسن تم سے زیادہ جمیل اور نظیف ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوزیادہ پیاری بھی ہیں۔ آپ کی مراد عائشہ رضی اللہ عنہا سے تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، ان دنوں یہ چرچا ہو رہا تھا کہ غسان کے فوجی ہم سے لڑنے کے لیے گھوڑوں کے نعل باندھ رہے ہیں۔ میرے پڑوسی ایک دن اپنی باری پر مدینہ گئے ہوئے تھے۔ پھر عشاءکے وقت واپس لوٹے۔ آکر میرا دروازہ انہوں نے بڑی زور سے کھٹکھٹایا، اور کہا کیا آپ سو گئے ہیں؟ میں بہت گھبرایا ہوا باہر آیا انہوں نے کہا کہ ایک بہت بڑا حادثہ پیش آگیا ہے۔ میں نے پوچھا کیا ہوا؟ کیا غسان کا لشکر آگیا؟ انہوںنے کہا بلکہ اس سے بھی بڑا اور سنگین حادثہ، وہ یہ کہ رسول اللہ صلی الل علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی۔ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، حفصہ تو تباہ و براد ہو گئی۔ مجھے تو پہلے ہی کھٹکا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہوجائے ( عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ) پھر میں نے کپڑے پہنے۔ صبح کی نماز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی ( نماز پڑھتے ہی ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالا خانہ میں تشریف لے گئے اور وہیں تنہائی اختیار کر لی۔ میں حفصہ کے یہاں گیا، دیکھا تو وہ رو رہی تھیں، میں نے کہا، رو کیوں رہی ہو؟ کیا پہلے ہی میں نے تمہیں نہیں کہہ دیا تھا؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سب کو طلاق دے دی ہے؟ انہوں نے کہا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں۔ آپ بالاخانہ میں تشریف رکھتے ہیں۔ پھر میں باہر نکلا اور منبر کے پاس آیا۔ وہاں کچھ لوگ موجود تھے اور بعض رو بھی رہے تھے۔ تھوڑی دیر تو میں ان کے ساتھ بیٹھا رہا۔ لیکن مجھ پر رنج کا غلبہ ہوا، اور میں بالاخانے کے پاس پہنچا، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک سیاہ غلام سے کہا، ( کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہو ) کہ عمر اجازت چاہتا ہے۔ وہ غلام اند رگیا اور آپ سے گفتگو کرکے واپس آیا اور کہا کہ میں نے آپ کی بات پہنچا دی تھی، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے، چنانچہ میں واپس آکر انہیں لوگوں کے ساتھ بیٹھ گیا جو منبر کے پاس موجود تھے۔ پھر مجھ پر رنج غالب آیا اور میں دوبارہ آیا۔ لیکن اس دفعہ بھی وہی ہوا۔ پھر آکر انہیں لوگوں میں بیٹھ گیا جو منبر کے پاس تھے۔ لیکن اس مرتبہ پھر مجھ سے نہیں رہا گیا اور میں نے غلام سے آ کر کہا، کہ عمر کے لیے اجازت چاہو۔ لیکن بات جوں کی توں رہی۔ جب میں واپس ہو رہا تھا کہ غلام نے مجھ کو پکارا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اجازت دے دی ہے۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کھجور کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ جس پر کوئی بستر بھی نہیں تھا۔ اس لیے چٹائی کے ابھرے ہوئے حصوں کا نشان آپ کے پہلو میں پڑ گیا تھا۔ آپ اس وقت ایک ایسے تکےے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے جس کے اندر کھجور کی چھال بھری گئی تھی۔ میں نے آپ کو سلام کیا اورکھڑے ہی کھڑے عرض کی، کہ کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپ نے نگاہ میری طرف کرکے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے آپ کے غم کو ہلکا کرنے کی کوشش کی اور کہنے لگا.... اب بھی میں کھڑا ہی تھا.... یا رسول اللہ ! آپ جانتے ہی ہیں کہ ہم قریش کے لوگ اپنی بیویوں پر غالب رہتے تھے، لیکن جب ہم ایک ایسی قوم میں آگئے جن کی عورتیں ان پر غالب تھیں، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تفصیل ذکر کی۔ اس بات پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیئے۔ پھر میں نے کہا میں حفصہ کے یہاں بھی گیا تھا اور اس سے کہہ آیا تھا کہ کہیں کسی خود فریبی میں نہ مبتلا رہنا۔ یہ تمہاری پڑوسن تم سے زیادہ خوبصورت اور پاک ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ محبوب بھی ہیں۔ آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ اس با ت پر آپ دوبارہ مسکرا دیئے۔ جب میں نے آپ کو مسکراتے دیکھا، تو ( آپ کے پاس ) بیٹھ گیا۔ اور آپ کے گھر میں چاروں طرف دیکھنے لگا۔ بخدا ! سوا تین کھالوں کے اور کوئی چیز وہاں نظر نہ آئی۔ میں نے کہا۔ یا رسول اللہ ! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ وہ آپ کی امت کو کشادگی عطا فرما دے۔ فارس اور روم کے لوگ تو پوری فراخی کے ساتھ رہتے ہیں۔ دنیا انہیں خوب ملی ہوئی ہے۔ حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی نہیں کرتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا، اے خطاب کے بیٹے ! کیا تمہیں ابھی کچھ شبہ ہے؟ ( تو دنیا کی دولت کو اچھی سمجھتا ہے ) یہ توایسے لوگ ہیں کہ ان کے اچھے اعمال ( جو وہ معاملات کی حد تک کرتے ہیں ان کی جزا ) اسی دنیا میں ان کودے دی گئی ہے۔ ( یہ سن کر ) میں بول اٹھا یا رسول اللہ ! میرے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کیجئے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اپنی ازواج سے ) اس بات پر علیحدگی اختیار کر لی تھی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے حفصہ رضی اللہ عنہ نے پوشیدہ بات کہہ دی تھی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انتہائی خفگی کی وجہ سے جو آپ کو ہوئی تھی، فرمایا تھا کہ میں اب ان کے پاس ایک مہینے تک نہیں جاؤں گا۔ اور یہی موقعہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو متنبہ کیا تھا۔ پھر جب انتیس دن گزر گئے تو آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے اور انہیں کے یہاں سے آپ نے ابتداءکی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ آپ نے تو عہد کیا تھا کہ ہمارے یہاں ایک مہینے تک نہیں تشریف لائیں گے۔ اور آج ابھی انتیسویں کی صبح ہے۔ میں تو دن گن رہی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہ مہینہ انتیس دن کا ہے اور وہ مہینہ انتیس ہی دن کا تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر وہ آیت نازل ہوئی جس میں ( ازواج النبی کو ) اختیار دیا گیا تھا۔ اس کی بھی ابتداءآپ نے مجھ ہی سے کی اور فرمایا کہ میں تم سے ایک بات کہتا ہوں، اور یہ ضروری نہیں کہ جواب فوراً دو، بلکہ اپنے والدین سے بھی مشورہ کر لو۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ آپ کو یہ معلوم تھا کہ میرے ماں باپ کبھی آپ سے جدائی کا مشورہ نہیں دے سکتے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ” اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہہ دو “ اللہ تعالیٰ کے قول عظیما تک۔ میں نے عرض کیا کیا اب اس معاملے میں بھی میں اپنے والدین سے مشورہ کرنے جاؤں گی ! ا س میں تو کسی شبہ کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ کہ میں اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کو پسند کرتی ہوں۔ اس کے بعد آپ نے اپنی دوسری بیویوں کو بھی اختیار دیا اور انہوں نے بھی وہی جواب دیا جو عائشہ رضی اللہ عنہا نے دیا تھا۔
تشریح :
تشریح : معلوم ہوا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ دلانا اور ناراض کرنا اللہ کو غضب دلانا اور ناراض کرنا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا میں تشریف رکھتے تھے تو ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ تورات پڑھنے اور سنانے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ دوسرے صحابہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ملامت کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ نہیں دیکھتے۔ اس وقت انہوں نے تورات پڑھنا موقوف کیا۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو ان کو بھی میری تابعداری کرنی ہوتی۔ اس حدیث سے ان لوگوں کو نصیحت لینی چاہئے جو اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس پر حدیث شریف سن کر دوسرے مولوی یا امام یا درویش کی بات پر عمل کرتے ہیں اور حدیث شریف پر عمل نہیں کرتے۔ خیال کرنا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک کو ایسی باتوں سے کتنا صدمہ ہوتا ہوگا اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ناراض ہوئے تو کہاں ٹھکانا رہا۔ اللہ جل و جلالہ بھی ناراض ہوا۔ ایسی حالت میں نہ کوئی مولوی کام آئے گا نہ پیر نہ دوریش نہ امام۔
اللہ ! تو اس بات کا گواہ ہے کہ ہم کو اپنے پیغمبر سے ایسی محبت ہے کہ باپ داداد، پیر مرشد، بزرگ امام مجتہد ساری دنیا کا قول اور فعل حدیث کے خلاف ہم لغو سمجھتے ہیں اور تیری اور تیرے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی ہم کو کافی وافی ہے۔ اگر یہ سب تیری اور تیرے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری میں بالفرض ہم سے ناراض ہو جائیں تو ہم کو ان کی ناراضی کی ذرا بھی پروا نہیں ہے۔ یا اللہ ! ہماری جان بدن سے نکلتے ہی ہم کو ہمارے پیغمبر کے پا س پہنچا دے۔ ہم عالم برزخ میں آپ ہی کی کفش برداری کرتے رہیں اور آپ ہی کی حدیث سنتے رہیں۔ ( وحیدی )
حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم کی ایمان افروز تقریر ان محترم حضرات کو بغور مطالعہ کرنی چاہئے جو آیات قرانی واحادیث صحیحہ کے سامنے اپنے اماموں، مرشدوں کے اقوال کو ترجیح دیتے ہیں بلکہ بہت سے تو صاف لفظوں میں کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم کو آیات و احادیث سے غرض نہیں۔ ہمارے لیے ہمارے امام کا فتوی کافی وافی ہے۔
ایسے نادان مقلدین نے حضرات ائمہ کرام و مجتہدین عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کی ارواح طیبہ کو سخت ایذا پہنچائی ہے۔ ان بزرگوں کی ہرگز یہ ہدایت نہ تھی کہ ان کو مقام رسالت کا مد مقابل بنا دیا جائے۔ وہ بزرگان معصوم نہ تھے۔ امام تھے، مجتہد تھے، قابل صد احترام تھے مگر وہ رسول نہ تھے۔ نہ نبی تھے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مدمقابل نہ تھے۔ غالی مقلدین نے ان کے ساتھ جو برتاؤ کیا ہے قیامت کے دن یقینا ان کو اس کی جواب دہی کرنی ہوگی۔ یہی وہ حرکت ہے جسے شرک فی الرسالت ہی کا نام دیا جانا چاہئے۔ یہی وہ مرض ہے جو یہود و نصاریٰ کی تباہی کا موجب بنا اور قرآن مجید کو ان کے لیے صاف کہنا پڑا اتخذوا احبارہم و رہبانہم اربابا من دون اللہ ( التوبۃ : 31 ) یہود و نصاریٰ نے اپنے علماءو مشائخ کو اللہ کے سوا رب قرار دے لیا تھا۔ ان کے اوامر و نواہی کو وہ وحی آسمانی کا درجہ دے چکے تھے، اسی لیے وہ عنداللہ مغضوب اور ضالین قرار پائے۔
صد افسوس ! کہ امت مسلمہ ان سے بھی دو قدم آگے ہے۔ اور علماءو مشائخ کو یقینا ایسے لوگوں نے اللہ اور رسول کا درجہ دے رکھا ہے۔ کتنے پیر و مشائخ ہیں جو قبروں کی مجاوری کرتے کرتے خدا بنے بیٹھے ہیں۔ ان کے معتقدین ان کے قدموں میں سر رکھتے ہیں۔ ان کی خدمت و اطاعت کو اپنے لیے دونوں جہاں میں کافی و افی جانتے ہیں۔ ان کی شان میں ایک بھی تنقیدی لفظ گوار نہیں کر سکتے، یقینا ایسے غالی مسلمان آیت بالا کے مصداق ہیں۔ حالی مرحوم نے ایسے ہی لوگوں کے حق میں یہ رباعی کہی ہے۔
نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں
اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
مزاروں پر دن رات نذریں چڑھائیں
شہیدوں سے جاجا کے مانگیں دعائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے
نہ ایمان بگڑے نہ ا سلام جائے
اقعہ مذکور ہے۔ مختصر لفظوں میں اس کی تفصیل یہ ہے :
تمام ازواج کی باری مقرر تھی۔ اور اسی کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے یہاں جایا کرتے تھے۔ ایک دن عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری تھی اور انہیں کے گھر میں آپ کا اس دن قیام بھی تھا۔ لیکن اتفاق سے کسی وجہ سے آپ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہ کے یہاں تشریف لے گئے۔ حفصہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو وہاں دیکھ لیا اور آکر عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہہ دیا کہ باری تمہاری ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ماریہ رضی اللہ عنہا کے یہاں گئے ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس پر بڑا غصہ آیا۔ اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد کر لیا تھا کہ ایک مہینہ تک ازواج مطہرات سے علیحدہ رہیں گے۔ اور اس عرصے میں ان کے پاس نہیں جائیں گے۔ ا س پر صحابہ میں بہت تشویش پھیلی اور ازواج مطہرات اور ان کے عزیز و اقارب تک ہی بات نہیں رہی بلکہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اس فیصلے پر بہت پریشان ہو گئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عہد کی تعبیر احادیث میں ”ایلا“ کے لفظ آتی ہے اور یہ بہت مشہور واقعہ ہے اس سے پہلے بھی بخاری میں اس کا ذکر آچکا ہے۔
ایلاءکے اسباب احادیث میں مختلف آئے ہیں۔ ایک تو وہی جو حدیث میں ذکر ہے، بعض روایتوں میں اس کا سبب ازواج مطہرات کا وہ مطالبہ بیان ہوا ہے کہ اخراجات انہیں ضرورت سے کم ملتے تھے، تنگی رہتی تھی، اس لیے تمام ازواج مطہرات نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ انہیں اخراجات زیادہ ملنے چاہئیں۔ بعض روایتوں میں شہد کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ علماءنے لکھا ہے کہ اصل میں یہ تمام واقعات پے در پے پیش آئے اور ان سب سے متاثر ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایلاءکیا تھا، تاکہ ازواج کو تنبیہ ہو جائے۔ ازواج مطہرات سب کچھ ہونے کے باوجود پھر بھی انسان تھیں۔ اس لیے کبھی سوکن کی رقابت میں، کبھی کسی دوسرے انسانی جذبہ سے متاثر ہو کر اس طرح کے اقدامات کر جایا کرتی تھیں۔ جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہوتی تھی۔ اس باب میں اس حدیث کو ا س لیے ذکر کیا کہ اس میں بالا خانے کا ذکر ہے جس میں آپ نے تنہائی اختیار کی تھی۔
تشریح : معلوم ہوا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ دلانا اور ناراض کرنا اللہ کو غضب دلانا اور ناراض کرنا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا میں تشریف رکھتے تھے تو ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ تورات پڑھنے اور سنانے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ دوسرے صحابہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ملامت کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ نہیں دیکھتے۔ اس وقت انہوں نے تورات پڑھنا موقوف کیا۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو ان کو بھی میری تابعداری کرنی ہوتی۔ اس حدیث سے ان لوگوں کو نصیحت لینی چاہئے جو اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس پر حدیث شریف سن کر دوسرے مولوی یا امام یا درویش کی بات پر عمل کرتے ہیں اور حدیث شریف پر عمل نہیں کرتے۔ خیال کرنا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک کو ایسی باتوں سے کتنا صدمہ ہوتا ہوگا اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ناراض ہوئے تو کہاں ٹھکانا رہا۔ اللہ جل و جلالہ بھی ناراض ہوا۔ ایسی حالت میں نہ کوئی مولوی کام آئے گا نہ پیر نہ دوریش نہ امام۔
اللہ ! تو اس بات کا گواہ ہے کہ ہم کو اپنے پیغمبر سے ایسی محبت ہے کہ باپ داداد، پیر مرشد، بزرگ امام مجتہد ساری دنیا کا قول اور فعل حدیث کے خلاف ہم لغو سمجھتے ہیں اور تیری اور تیرے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی ہم کو کافی وافی ہے۔ اگر یہ سب تیری اور تیرے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری میں بالفرض ہم سے ناراض ہو جائیں تو ہم کو ان کی ناراضی کی ذرا بھی پروا نہیں ہے۔ یا اللہ ! ہماری جان بدن سے نکلتے ہی ہم کو ہمارے پیغمبر کے پا س پہنچا دے۔ ہم عالم برزخ میں آپ ہی کی کفش برداری کرتے رہیں اور آپ ہی کی حدیث سنتے رہیں۔ ( وحیدی )
حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم کی ایمان افروز تقریر ان محترم حضرات کو بغور مطالعہ کرنی چاہئے جو آیات قرانی واحادیث صحیحہ کے سامنے اپنے اماموں، مرشدوں کے اقوال کو ترجیح دیتے ہیں بلکہ بہت سے تو صاف لفظوں میں کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم کو آیات و احادیث سے غرض نہیں۔ ہمارے لیے ہمارے امام کا فتوی کافی وافی ہے۔
ایسے نادان مقلدین نے حضرات ائمہ کرام و مجتہدین عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کی ارواح طیبہ کو سخت ایذا پہنچائی ہے۔ ان بزرگوں کی ہرگز یہ ہدایت نہ تھی کہ ان کو مقام رسالت کا مد مقابل بنا دیا جائے۔ وہ بزرگان معصوم نہ تھے۔ امام تھے، مجتہد تھے، قابل صد احترام تھے مگر وہ رسول نہ تھے۔ نہ نبی تھے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مدمقابل نہ تھے۔ غالی مقلدین نے ان کے ساتھ جو برتاؤ کیا ہے قیامت کے دن یقینا ان کو اس کی جواب دہی کرنی ہوگی۔ یہی وہ حرکت ہے جسے شرک فی الرسالت ہی کا نام دیا جانا چاہئے۔ یہی وہ مرض ہے جو یہود و نصاریٰ کی تباہی کا موجب بنا اور قرآن مجید کو ان کے لیے صاف کہنا پڑا اتخذوا احبارہم و رہبانہم اربابا من دون اللہ ( التوبۃ : 31 ) یہود و نصاریٰ نے اپنے علماءو مشائخ کو اللہ کے سوا رب قرار دے لیا تھا۔ ان کے اوامر و نواہی کو وہ وحی آسمانی کا درجہ دے چکے تھے، اسی لیے وہ عنداللہ مغضوب اور ضالین قرار پائے۔
صد افسوس ! کہ امت مسلمہ ان سے بھی دو قدم آگے ہے۔ اور علماءو مشائخ کو یقینا ایسے لوگوں نے اللہ اور رسول کا درجہ دے رکھا ہے۔ کتنے پیر و مشائخ ہیں جو قبروں کی مجاوری کرتے کرتے خدا بنے بیٹھے ہیں۔ ان کے معتقدین ان کے قدموں میں سر رکھتے ہیں۔ ان کی خدمت و اطاعت کو اپنے لیے دونوں جہاں میں کافی و افی جانتے ہیں۔ ان کی شان میں ایک بھی تنقیدی لفظ گوار نہیں کر سکتے، یقینا ایسے غالی مسلمان آیت بالا کے مصداق ہیں۔ حالی مرحوم نے ایسے ہی لوگوں کے حق میں یہ رباعی کہی ہے۔
نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں
اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
مزاروں پر دن رات نذریں چڑھائیں
شہیدوں سے جاجا کے مانگیں دعائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے
نہ ایمان بگڑے نہ ا سلام جائے
اقعہ مذکور ہے۔ مختصر لفظوں میں اس کی تفصیل یہ ہے :
تمام ازواج کی باری مقرر تھی۔ اور اسی کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے یہاں جایا کرتے تھے۔ ایک دن عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری تھی اور انہیں کے گھر میں آپ کا اس دن قیام بھی تھا۔ لیکن اتفاق سے کسی وجہ سے آپ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہ کے یہاں تشریف لے گئے۔ حفصہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو وہاں دیکھ لیا اور آکر عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہہ دیا کہ باری تمہاری ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ماریہ رضی اللہ عنہا کے یہاں گئے ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس پر بڑا غصہ آیا۔ اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد کر لیا تھا کہ ایک مہینہ تک ازواج مطہرات سے علیحدہ رہیں گے۔ اور اس عرصے میں ان کے پاس نہیں جائیں گے۔ ا س پر صحابہ میں بہت تشویش پھیلی اور ازواج مطہرات اور ان کے عزیز و اقارب تک ہی بات نہیں رہی بلکہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اس فیصلے پر بہت پریشان ہو گئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عہد کی تعبیر احادیث میں ”ایلا“ کے لفظ آتی ہے اور یہ بہت مشہور واقعہ ہے اس سے پہلے بھی بخاری میں اس کا ذکر آچکا ہے۔
ایلاءکے اسباب احادیث میں مختلف آئے ہیں۔ ایک تو وہی جو حدیث میں ذکر ہے، بعض روایتوں میں اس کا سبب ازواج مطہرات کا وہ مطالبہ بیان ہوا ہے کہ اخراجات انہیں ضرورت سے کم ملتے تھے، تنگی رہتی تھی، اس لیے تمام ازواج مطہرات نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ انہیں اخراجات زیادہ ملنے چاہئیں۔ بعض روایتوں میں شہد کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ علماءنے لکھا ہے کہ اصل میں یہ تمام واقعات پے در پے پیش آئے اور ان سب سے متاثر ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایلاءکیا تھا، تاکہ ازواج کو تنبیہ ہو جائے۔ ازواج مطہرات سب کچھ ہونے کے باوجود پھر بھی انسان تھیں۔ اس لیے کبھی سوکن کی رقابت میں، کبھی کسی دوسرے انسانی جذبہ سے متاثر ہو کر اس طرح کے اقدامات کر جایا کرتی تھیں۔ جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہوتی تھی۔ اس باب میں اس حدیث کو ا س لیے ذکر کیا کہ اس میں بالا خانے کا ذکر ہے جس میں آپ نے تنہائی اختیار کی تھی۔