‌صحيح البخاري - حدیث 2456

كِتَابُ المَظَالِمِ وَالغَصْبِ بَابُ إِذَا أَذِنَ إِنْسَانٌ لِآخَرَ شَيْئًا جَازَ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ أَبُو شُعَيْبٍ كَانَ لَهُ غُلَامٌ لَحَّامٌ فَقَالَ لَهُ أَبُو شُعَيْبٍ اصْنَعْ لِي طَعَامَ خَمْسَةٍ لَعَلِّي أَدْعُو النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَامِسَ خَمْسَةٍ وَأَبْصَرَ فِي وَجْهِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجُوعَ فَدَعَاهُ فَتَبِعَهُمْ رَجُلٌ لَمْ يُدْعَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ هَذَا قَدْ اتَّبَعَنَا أَتَأْذَنُ لَهُ قَالَ نَعَمْ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2456

کتاب: ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں باب : جب کوئی شخص کسی دوسرے کو کسی چیز کی اجازت دے دے تو وہ اسے استعمال کر سکتا ہے ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابووائل نے اور ان سے ابومسعود رضی اللہ عنہ نے کہ انصار میں ایک صحابی جنہیں ابوشعیب رضی اللہ عنہ کہا جاتا تھا، کا ایک قصائی غلام تھا۔ ابوشعیب رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ میرے لیے پانچ آدمیوں کا کھانا تیا رکردے، کیوں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چار دیگر اصحاب کے ساتھ دعوت دوں گا۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر بھوک کے آثار دیکھے تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انہوں نے بتلایا۔ ایک اور شخص آپ کے ساتھ بن بلائے چلا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحب خانہ سے فرمایا یہ آدمی بھی ہمارے ساتھ آگیا ہے۔ کیا اس کے لیے تمہاری اجازت ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں اجازت ہے۔
تشریح : یہ حدیث اوپر گزر چکی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب کا مطلب بھی اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ بن بلائے دعوت میں جانا اور کھانا کھانا درست نہیں، مگر جب صاحب خانہ اجازت دے تو درست ہوگیا۔ اس حدیث سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رافت اور رحمت پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی کا بھوکا رہنا گوارا نہ تھا۔ ایک باخدا بزرگ انسان کی یہی شان ہونی چاہئے۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ یہ حدیث اوپر گزر چکی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب کا مطلب بھی اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ بن بلائے دعوت میں جانا اور کھانا کھانا درست نہیں، مگر جب صاحب خانہ اجازت دے تو درست ہوگیا۔ اس حدیث سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رافت اور رحمت پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی کا بھوکا رہنا گوارا نہ تھا۔ ایک باخدا بزرگ انسان کی یہی شان ہونی چاہئے۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔