‌صحيح البخاري - حدیث 2439

كِتَابُ فِي اللُّقَطَةِ بَابٌ صحيح حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا النَّضْرُ أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ أَخْبَرَنِي الْبَرَاءُ عَنْ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ح و حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ الْبَرَاءِ عَنْ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ انْطَلَقْتُ فَإِذَا أَنَا بِرَاعِي غَنَمٍ يَسُوقُ غَنَمَهُ فَقُلْتُ لِمَنْ أَنْتَ قَالَ لِرَجُلٍ مِنْ قُرَيْشٍ فَسَمَّاهُ فَعَرَفْتُهُ فَقُلْتُ هَلْ فِي غَنَمِكَ مِنْ لَبَنٍ فَقَالَ نَعَمْ فَقُلْتُ هَلْ أَنْتَ حَالِبٌ لِي قَالَ نَعَمْ فَأَمَرْتُهُ فَاعْتَقَلَ شَاةً مِنْ غَنَمِهِ ثُمَّ أَمَرْتُهُ أَنْ يَنْفُضَ ضَرْعَهَا مِنْ الْغُبَارِ ثُمَّ أَمَرْتُهُ أَنْ يَنْفُضَ كَفَّيْهِ فَقَالَ هَكَذَا ضَرَبَ إِحْدَى كَفَّيْهِ بِالْأُخْرَى فَحَلَبَ كُثْبَةً مِنْ لَبَنٍ وَقَدْ جَعَلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِدَاوَةً عَلَى فَمِهَا خِرْقَةٌ فَصَبَبْتُ عَلَى اللَّبَنِ حَتَّى بَرَدَ أَسْفَلُهُ فَانْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ اشْرَبْ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَشَرِبَ حَتَّى رَضِيتُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2439

کتاب: لقطہ یعنی گری پڑی چیزوں کے بارے باب ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو نضر نے خبر دی، کہا کہ ہم کو اسرائیل نے خبر دی ابواسحاق سے کہ مجھے براءبن عازب رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے خبر دی ( دوسری سند ) ہم سے عبداللہ بن رجاءنے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسرائیل نے بیان کیا ابواسحاق سے، اورانہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہ ( ہجرت کرکے مدینہ جاتے وقت ) میں نے تلاش کیا تو مجھے ایک چرواہا ملا جو اپنی بکریاں چرا رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم کس کے چرواہے ہو؟ اس نے کہا کہ قریش کے ایک شخص کا۔ اس نے قریشی کا نام بھی بتایا، جسے میں جانتا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کیا تمہارے ریوڑ کی بکریوں میں دودھ بھی ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں ! میں نے اس سے کہا کیا تم میرے لیے دودھ دوہ لو گے؟ اس نے کہا، ہاں ضرور ! چنانچہ میں نے اس سے دوہنے کے لیے کہا۔ وہ اپنے ریوڑ سے ایک بکری پکڑ لایا۔ پھر میں نے اس سے بکری کا تھن گرد وغبار سے صاف کرنے کے لیے کہا۔ پھر میں نے اس سے اپنا ہاتھ صاف کرنے کے لیے کہا۔ اس نے ویسا ہی کیا۔ ایک ہاتھ کو دوسرے پر مار کر صاف کر لیا۔ اور ایک پیالہ دودھ دوہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے میں نے ایک برتن ساتھ لیا تھا۔ جس کے منہ پر کپڑا بندھا ہوا تھا۔ میں نے پانی دودھ پر بہایا۔ جس سے اس کا نچلا حصہ ٹھنڈا ہو گیا پھر دودھ لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور عرض کیا کہ دودھ حاضر ہے۔ یا رسول اللہ ! پی لیجئے، آپ نے اسے پیا، یہاں تک کہ میں خوش ہو گیا۔
تشریح : "اس باب کے لانے سے غرض یہ ہے کہ اس مسئلہ میں لوگوں کا اختلاف ہے۔ بعض نے یہ کہا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی باغ پر سے گزرے یا جانوروں کے گلے پر سے تو باغ کا پھل یا جانور کا دودھ کھا پی سکتا ہے۔ گو مالک سے اجازت نہ لے، مگر جمہور علماءاس کے خلاف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بے ضرورت ایسا کرنا جائز نہیں۔ اور ضرورت کے وقت اگرکر گزرے تو مالک کو تاوان دے۔ امام احمد نے کہا اگر باغ پر حصار نہ ہو تو تر میوہ کھا سکتا ہے۔ گو ضرورت نہ ہو۔ ایک روایت یہ ہے کہ جب اس کی ضرورت اور احتیاج ہو، لیکن دونوں حالتوں میں اس پر تاوان نہ ہوگا۔ اور دلیل ان کی امام بیہقی کی حدیث ہے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً جب تم میں سے کوئی کسی باغ پر سے گزرے تو کھا لے۔ لیکن جمع کرکے نہ لے جائے۔ خلاصہ یہ ہے کہ آج کل کے حالات میں بغیر اجازت کسی بھی باغ کا پھل کھانا خواہ حاجت ہو یا نہ ہو مناسب نہیں ہے۔ اسی طرح کسی جانور کا دودھ نکال کر از خود پی لینا اور مالک سے اجازت نہ لینا، یہ بھی اس دور میں ٹھیک نہیں ہے۔ کسی شخص کی اضطراری حالت ہو، وہ پیاس اور بھوک سے قریب المرگ ہو اور اس حالت میں وہ کسی باغ پر سے گزرے یا کسی ریوڑ پر سے، تو اس کے لیے ایسی مجبوری میں اجازت دی گئی ہے۔ یہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ بعد میں مالک اگر تاوان طلب کرے تو اسے دینا چاہئے۔ " "اس باب کے لانے سے غرض یہ ہے کہ اس مسئلہ میں لوگوں کا اختلاف ہے۔ بعض نے یہ کہا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی باغ پر سے گزرے یا جانوروں کے گلے پر سے تو باغ کا پھل یا جانور کا دودھ کھا پی سکتا ہے۔ گو مالک سے اجازت نہ لے، مگر جمہور علماءاس کے خلاف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بے ضرورت ایسا کرنا جائز نہیں۔ اور ضرورت کے وقت اگرکر گزرے تو مالک کو تاوان دے۔ امام احمد نے کہا اگر باغ پر حصار نہ ہو تو تر میوہ کھا سکتا ہے۔ گو ضرورت نہ ہو۔ ایک روایت یہ ہے کہ جب اس کی ضرورت اور احتیاج ہو، لیکن دونوں حالتوں میں اس پر تاوان نہ ہوگا۔ اور دلیل ان کی امام بیہقی کی حدیث ہے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً جب تم میں سے کوئی کسی باغ پر سے گزرے تو کھا لے۔ لیکن جمع کرکے نہ لے جائے۔ خلاصہ یہ ہے کہ آج کل کے حالات میں بغیر اجازت کسی بھی باغ کا پھل کھانا خواہ حاجت ہو یا نہ ہو مناسب نہیں ہے۔ اسی طرح کسی جانور کا دودھ نکال کر از خود پی لینا اور مالک سے اجازت نہ لینا، یہ بھی اس دور میں ٹھیک نہیں ہے۔ کسی شخص کی اضطراری حالت ہو، وہ پیاس اور بھوک سے قریب المرگ ہو اور اس حالت میں وہ کسی باغ پر سے گزرے یا کسی ریوڑ پر سے، تو اس کے لیے ایسی مجبوری میں اجازت دی گئی ہے۔ یہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ بعد میں مالک اگر تاوان طلب کرے تو اسے دینا چاہئے۔ "