‌صحيح البخاري - حدیث 243

كِتَابُ الوُضُوءِ بَابُ غَسْلِ المَرْأَةِ أَبَاهَا الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ سَلاَمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، سَمِعَ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ، وَسَأَلَهُ النَّاسُ، وَمَا بَيْنِي وَبَيْنَهُ أَحَدٌ: بِأَيِّ شَيْءٍ دُووِيَ جُرْحُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: مَا بَقِيَ أَحَدٌ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، «كَانَ عَلِيٌّ يَجِيءُ بِتُرْسِهِ فِيهِ مَاءٌ، وَفَاطِمَةُ تَغْسِلُ عَنْ وَجْهِهِ الدَّمَ، فَأُخِذَ حَصِيرٌ فَأُحْرِقَ، فَحُشِيَ بِهِ جُرْحُهُ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 243

کتاب: وضو کے بیان میں باب: عورت کا اپنے باپ کے چہرے سے خون دھونا ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے ابن ابی حازم کے واسطے سے نقل کیا، انھوں نے سہل بن سعد الساعدی سے سنا کہ لوگوں نے ان سے پوچھا، اور ( میں اس وقت سہل کے اتنا قریب تھا کہ ) میرے اور ان کے درمیان کوئی دوسرا حائل نہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ( احد کے ) زخم کا علاج کس دوا سے کیا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اس بات کا جاننے والا ( اب ) مجھ سے زیادہ کوئی نہیں رہا۔ علی رضی اللہ عنہ اپنی ڈھال میں پانی لاتے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے منہ سے خون دھوتیں پھر ایک بوریا کا ٹکڑا جلایا گیا اور آپ کے زخم میں بھر دیا گیا۔
تشریح : اس حدیث سے دواا ور علاج کرنے کا جواز ثابت ہوا اور یہ کہ یہ توکل کے منافی نہیں۔ نیز یہ کہ نجاست دورکرنے میں دوسروںسے مددلینا درست ہے۔ اس حدیث سے دواا ور علاج کرنے کا جواز ثابت ہوا اور یہ کہ یہ توکل کے منافی نہیں۔ نیز یہ کہ نجاست دورکرنے میں دوسروںسے مددلینا درست ہے۔