كِتَابُ فِي اللُّقَطَةِ بَابُ إِذَا لَمْ يُوجَدْ صَاحِبُ اللُّقَطَةِ بَعْدَ سَنَةٍ فَهِيَ لِمَنْ وَجَدَهَا صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ عَنْ اللُّقَطَةِ فَقَالَ اعْرِفْ عِفَاصَهَا وَوِكَاءَهَا ثُمَّ عَرِّفْهَا سَنَةً فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلَّا فَشَأْنَكَ بِهَا قَالَ فَضَالَّةُ الْغَنَمِ قَالَ هِيَ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ قَالَ فَضَالَّةُ الْإِبِلِ قَالَ مَا لَكَ وَلَهَا مَعَهَا سِقَاؤُهَا وَحِذَاؤُهَا تَرِدُ الْمَاءَ وَتَأْكُلُ الشَّجَرَ حَتَّى يَلْقَاهَا رَبُّهَا
کتاب: لقطہ یعنی گری پڑی چیزوں کے بارے
باب : پکڑی ہوئی چیز کا مالک اگر ایک سال تک نہ ملے تو وہ پانے والے کی ہو جائے گی
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ربیعہ بن ابی عبدالرحمن نے، انہیں منبعث کے غلام یزید نے اور ان سے زید بن خالد رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہ کے بارے میں سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے برتن کی بناوٹ اور ا س کے بندھن کو ذہن میں یاد رکھ کر ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ۔ اگر مالک مل جائے ( تو اسے دے دے ) و رنہ اپنی ضرورت میں خرچ کر۔ انہوں نے پوچھا اور اگر راستہ بھولی ہوئی بکری ملے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تمہاری ہوگی یا تمہارے بھائی کی ہوگی۔ ورنہ پھر بھیڑیا اسے اٹھا لے جائے گا صحابی نے پوچھا اور اونٹ جو راستہ بھول جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں اس سے کیا مطلب؟ اس کے ساتھ خود اس کا مشکیزہ ہے، اس کے کھر ہیں، پانی پر وہ خود ہی پہنچ جائے گا اور خود ہی درخت کے پتے کھا لے گا۔ اور ا س طرح کسی نہ کسی دن اس کا مالک اسے خود پالے گا۔
تشریح :
فان جاءصاحبہا یعنی اگر اس کا مالک آجائے تو اس کے حوالے کر دے۔ جیسے ا مام احمد اور ترمذی اور نسائی کی ایک روایت میں اس کی صراحت ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص آئے جو اس کی گنتی اور تھیلی اور سر بندھن کو ٹھیک ٹھیک بتلا دے تو اس کو دے دے۔ معلوم ہوا کہ صحیح طور پر اسے پہچان لینے والے کو وہ مال دے دینا چاہئے۔ گواہ شاہد کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔ اس روایت میں دو سال تک بتلانے کا ذکر ہے۔ اور آگے والی احادیث میں صرف ایک سال تک کا بیان ہوا ہے۔ اور تمام علماءنے اب اسی کو اختیار کیا ہے اور دو سال والی روایت کے حکم کو ورع اور احتیاط پر محمول کیا۔ یوں محتاط حضرات اگر ساری عمر بھی اسے اپنے استعمال میں نہ لائیں اور آخر میں چل کر بطور صدقہ خیرات دے کر اسے ختم کر دیں تو اسے نور علی نور ہی کہنا مناسب ہوگا۔
فان جاءصاحبہا یعنی اگر اس کا مالک آجائے تو اس کے حوالے کر دے۔ جیسے ا مام احمد اور ترمذی اور نسائی کی ایک روایت میں اس کی صراحت ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص آئے جو اس کی گنتی اور تھیلی اور سر بندھن کو ٹھیک ٹھیک بتلا دے تو اس کو دے دے۔ معلوم ہوا کہ صحیح طور پر اسے پہچان لینے والے کو وہ مال دے دینا چاہئے۔ گواہ شاہد کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔ اس روایت میں دو سال تک بتلانے کا ذکر ہے۔ اور آگے والی احادیث میں صرف ایک سال تک کا بیان ہوا ہے۔ اور تمام علماءنے اب اسی کو اختیار کیا ہے اور دو سال والی روایت کے حکم کو ورع اور احتیاط پر محمول کیا۔ یوں محتاط حضرات اگر ساری عمر بھی اسے اپنے استعمال میں نہ لائیں اور آخر میں چل کر بطور صدقہ خیرات دے کر اسے ختم کر دیں تو اسے نور علی نور ہی کہنا مناسب ہوگا۔