كِتَابُ فِي اللُّقَطَةِ بَابُ ضَالَّةِ الإِبِلِ صحيح حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَبَّاسٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ رَبِيعَةَ حَدَّثَنِي يَزِيدُ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ جَاءَ أَعْرَابِيٌّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ عَمَّا يَلْتَقِطُهُ فَقَالَ عَرِّفْهَا سَنَةً ثُمَّ احْفَظْ عِفَاصَهَا وَوِكَاءَهَا فَإِنْ جَاءَ أَحَدٌ يُخْبِرُكَ بِهَا وَإِلَّا فَاسْتَنْفِقْهَا قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَضَالَّةُ الْغَنَمِ قَالَ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ قَالَ ضَالَّةُ الْإِبِلِ فَتَمَعَّرَ وَجْهُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا لَكَ وَلَهَا مَعَهَا حِذَاؤُهَا وَسِقَاؤُهَا تَرِدُ الْمَاءَ وَتَأْكُلُ الشَّجَرَ
کتاب: لقطہ یعنی گری پڑی چیزوں کے بارے
باب : بھولے بھٹکے اونٹ کا بیان
ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرحمن بن مہدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، ان سے ربیعہ نے، ان سے منبعث کے غلام یزید نے، اور انس ے زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دیہاتی حاضر ہوا۔ اور راستے میں پڑی ہوئی کسی چیز کو اٹھانے کے بارے میں آپ سے سوال کیا۔ آپ نے ان سے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ۔ پھر اس کے برتن کی بناوٹ اور اس کے بندھن کو ذہن میں بند رکھ۔ اگر کوئی ایسا شخص آئے جو اس کی نشانیاں ٹھیک ٹھیک بتا دے ( تو اسے اس کا مال واپس کر دے ) ورنہ اپنی ضروریات میں خرچ کر۔ صحابی نے پوچھا، یا رسول اللہ ! ایسی بکری کا کیا کیا جائے جس کے مالک کا پتہ نہ ہو؟ آپ نے فرمایا کہ وہ یا تو تمہاری ہوگی یا تمہارے بھائی ( مالک ) کو مل جائے گی یا پھر بھیڑئیے کا لقمہ بنے گی۔ صحابہ نے پھر پوچھا اور اس اونٹ کا کیا کیا جائے جو راستہ بھول گیاہو؟ اس پر رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا۔ آپ نے فرمایا، تمہیں اس سے کیا مطلب؟ اس کے ساتھ خود اس کے کھر ہیں۔ ( جن سے وہ چلے گا ) اس کا مشکیزہ ہے، پانی پر وہ خود پہنچ جائے گا۔ اور درخت کے پتے وہ خود کھا لے گا۔
تشریح :
ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرحمن بن مہدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، ان سے ربیعہ نے، ان سے منبعث کے غلام یزید نے، اور انس ے زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دیہاتی حاضر ہوا۔ اور راستے میں پڑی ہوئی کسی چیز کو اٹھانے کے بارے میں آپ سے سوال کیا۔ آپ نے ان سے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ۔ پھر اس کے برتن کی بناوٹ اور اس کے بندھن کو ذہن میں بند رکھ۔ اگر کوئی ایسا شخص آئے جو اس کی نشانیاں ٹھیک ٹھیک بتا دے ( تو اسے اس کا مال واپس کر دے ) ورنہ اپنی ضروریات میں خرچ کر۔ صحابی نے پوچھا، یا رسول اللہ ! ایسی بکری کا کیا کیا جائے جس کے مالک کا پتہ نہ ہو؟ آپ نے فرمایا کہ وہ یا تو تمہاری ہوگی یا تمہارے بھائی ( مالک ) کو مل جائے گی یا پھر بھیڑئیے کا لقمہ بنے گی۔ صحابہ نے پھر پوچھا اور اس اونٹ کا کیا کیا جائے جو راستہ بھول گیاہو؟ اس پر رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا۔ آپ نے فرمایا، تمہیں اس سے کیا مطلب؟ اس کے ساتھ خود اس کے کھر ہیں۔ ( جن سے وہ چلے گا ) اس کا مشکیزہ ہے، پانی پر وہ خود پہنچ جائے گا۔ اور درخت کے پتے وہ خود کھا لے گا۔
ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرحمن بن مہدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، ان سے ربیعہ نے، ان سے منبعث کے غلام یزید نے، اور انس ے زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دیہاتی حاضر ہوا۔ اور راستے میں پڑی ہوئی کسی چیز کو اٹھانے کے بارے میں آپ سے سوال کیا۔ آپ نے ان سے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ۔ پھر اس کے برتن کی بناوٹ اور اس کے بندھن کو ذہن میں بند رکھ۔ اگر کوئی ایسا شخص آئے جو اس کی نشانیاں ٹھیک ٹھیک بتا دے ( تو اسے اس کا مال واپس کر دے ) ورنہ اپنی ضروریات میں خرچ کر۔ صحابی نے پوچھا، یا رسول اللہ ! ایسی بکری کا کیا کیا جائے جس کے مالک کا پتہ نہ ہو؟ آپ نے فرمایا کہ وہ یا تو تمہاری ہوگی یا تمہارے بھائی ( مالک ) کو مل جائے گی یا پھر بھیڑئیے کا لقمہ بنے گی۔ صحابہ نے پھر پوچھا اور اس اونٹ کا کیا کیا جائے جو راستہ بھول گیاہو؟ اس پر رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا۔ آپ نے فرمایا، تمہیں اس سے کیا مطلب؟ اس کے ساتھ خود اس کے کھر ہیں۔ ( جن سے وہ چلے گا ) اس کا مشکیزہ ہے، پانی پر وہ خود پہنچ جائے گا۔ اور درخت کے پتے وہ خود کھا لے گا۔