‌صحيح البخاري - حدیث 2420

كِتَابُ الخُصُومَاتِ بَابُ إِخْرَاجِ أَهْلِ المَعَاصِي وَالخُصُومِ مِنَ البُيُوتِ بَعْدَ المَعْرِفَةِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِالصَّلَاةِ فَتُقَامَ ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَى مَنَازِلِ قَوْمٍ لَا يَشْهَدُونَ الصَّلَاةَ فَأُحَرِّقَ عَلَيْهِمْ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2420

کتاب: نالشوں اور جھگڑوں کے بیان میں باب : جب حال معلوم ہو جائے تو مجرموں او رجھگڑے والوں کو گھر سے نکال دینا ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن عدی نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے سعد بن ابراہیم نے، ان سے حمید بن عبدالرحمن نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں نے تو یہ ارادہ کر لیا تھا کہ نماز کی جماعت قائم کرنے کا حکم دے کر خود ان لوگوں کے گھروں میں جاؤں جو جماعت میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھر کو جلا دوں۔
تشریح : "اس سے بھی ثابت ہوا کہ خطاکاروں پر کس حد تک تعزیر کا حکم ہے۔ خصوصاً نماز باجماعت میں تساہل برتنا اتنی بڑی غلطی ہے جس کے ارتکاب کرنے والوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے انتہائی غیظ و غضب کا اظہار فرمایا۔ اسی سے باب کا مقصد ثابت ہوا۔ تشریح : حدیث میں لفظ فاحرق علیہم سے ترجمہ باب نکلتا ہے کیوں کہ جب گھر جلائے جائیں گے تو وہ نکل بھاگیں گے۔ پس گھر سے نکالنا جائز ہوا۔ ہمارے شیخ امام ابن قیم نے اس حدیث سے اور کئی حدیثوں سے دلیل لی ہے۔ کہ شریعت میں تعزیر بالمال درست ہے یعنی حاکم اسلام کسی جرم کی سزا میں مجرم کو مالی تاوان کر سکتا ہے۔ پچھلے باب میں مدعی اور مدعی علیہ کے باہمی ناروا کلام کے بارے میں کچھ نرمی تھی۔ مجتہد مطلق حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ باب منعقد فرما کر اشارہ کیا کہ اگر حد سے باہر کوئی حرکت ہو تو ان پر سخت گرفت بھی ہوسکتی ہے۔ ان کو عدالت سے باہر نکالا جاسکتا ہے۔ حضرت امام نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کے اس اقدام سے استدلال فرمایا کہ انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات پر خود ان کی بہن ام فروہ رضی اللہ عنہا کو جب نوحہ کرتے دیکھا تو ان کو گھر سے نکلوا دیا۔ بلکہ بعض دوسری نوحہ کرنے والی عورتوں کو درے مار مار کر گھر سے باہر نکالا۔ فثبتت مشروعیۃ الاقتصار علی اخراج اہل المعصیۃ من باب الولی و محل اخراج الخصوم اذا وقع منہم من المراءواللدد ما یقتضی ذلک ( فتح الباری ) " "اس سے بھی ثابت ہوا کہ خطاکاروں پر کس حد تک تعزیر کا حکم ہے۔ خصوصاً نماز باجماعت میں تساہل برتنا اتنی بڑی غلطی ہے جس کے ارتکاب کرنے والوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے انتہائی غیظ و غضب کا اظہار فرمایا۔ اسی سے باب کا مقصد ثابت ہوا۔ تشریح : حدیث میں لفظ فاحرق علیہم سے ترجمہ باب نکلتا ہے کیوں کہ جب گھر جلائے جائیں گے تو وہ نکل بھاگیں گے۔ پس گھر سے نکالنا جائز ہوا۔ ہمارے شیخ امام ابن قیم نے اس حدیث سے اور کئی حدیثوں سے دلیل لی ہے۔ کہ شریعت میں تعزیر بالمال درست ہے یعنی حاکم اسلام کسی جرم کی سزا میں مجرم کو مالی تاوان کر سکتا ہے۔ پچھلے باب میں مدعی اور مدعی علیہ کے باہمی ناروا کلام کے بارے میں کچھ نرمی تھی۔ مجتہد مطلق حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ باب منعقد فرما کر اشارہ کیا کہ اگر حد سے باہر کوئی حرکت ہو تو ان پر سخت گرفت بھی ہوسکتی ہے۔ ان کو عدالت سے باہر نکالا جاسکتا ہے۔ حضرت امام نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کے اس اقدام سے استدلال فرمایا کہ انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات پر خود ان کی بہن ام فروہ رضی اللہ عنہا کو جب نوحہ کرتے دیکھا تو ان کو گھر سے نکلوا دیا۔ بلکہ بعض دوسری نوحہ کرنے والی عورتوں کو درے مار مار کر گھر سے باہر نکالا۔ فثبتت مشروعیۃ الاقتصار علی اخراج اہل المعصیۃ من باب الولی و محل اخراج الخصوم اذا وقع منہم من المراءواللدد ما یقتضی ذلک ( فتح الباری ) "