‌صحيح البخاري - حدیث 2419

كِتَابُ الخُصُومَاتِ بَابُ كَلاَمِ الخُصُومِ بَعْضِهِمْ فِي بَعْضٍ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ أَنَّهُ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ عَلَى غَيْرِ مَا أَقْرَؤُهَا وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْرَأَنِيهَا وَكِدْتُ أَنْ أَعْجَلَ عَلَيْهِ ثُمَّ أَمْهَلْتُهُ حَتَّى انْصَرَفَ ثُمَّ لَبَّبْتُهُ بِرِدَائِهِ فَجِئْتُ بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ إِنِّي سَمِعْتُ هَذَا يَقْرَأُ عَلَى غَيْرِ مَا أَقْرَأْتَنِيهَا فَقَالَ لِي أَرْسِلْهُ ثُمَّ قَالَ لَهُ اقْرَأْ فَقَرَأَ قَالَ هَكَذَا أُنْزِلَتْ ثُمَّ قَالَ لِي اقْرَأْ فَقَرَأْتُ فَقَالَ هَكَذَا أُنْزِلَتْ إِنَّ الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ فَاقْرَءُوا مِنْهُ مَا تَيَسَّرَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2419

کتاب: نالشوں اور جھگڑوں کے بیان میں باب : مدعی یا مدعی علیہ ایک دوسرے کی نسبت جو کہیں ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے، انہیں عبدالرحمن بن عبدالقاری نے کہ انہوں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا کہ وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو سورۃ فرقان ایک دفعہ اس قرات سے پڑھتے سنا جو اس کے خلاف تھی جو میں پڑھتا تھا۔ حالانکہ میری قرات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سکھائی تھی۔ قریب تھا کہ میں فوراً ہی ان پر کچھ کر بیٹھوں، لیکن میں نے انہیں مہلت دی کہ وہ ( نماز سے ) فارغ ہو لیں۔ اس کے بعد میں نے ان کے گلے میں چادر ڈال کر ان کو گھسیٹا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںحاضر کیا۔ میں نے آپ سے کہا کہ میں نے انہیں اس قرات کے خلاف پڑھتے سنا ہے جو آپ نے مجھے سکھائی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ پہلے انہیں چھوڑ دے۔ پھر ان سے فرمایا کہ اچھا اب تم قرات سناؤ۔ انہوں نے وہی اپنی قرات سنائی۔ آپ نے فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی تھی۔ اس کے بعد مجھ سے آپ نے فرمایا کہ اب تم بھی پڑھو، میں نے بھی پڑھ کر سنایا۔ آپ نے اس پر فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی۔ قرآن سات قراتوں میں نازل ہوا ہے۔ تم کو جس میں آسانی ہو اسی طرح سے پڑھ لیا کرو۔
تشریح : یعنی عرب کے ساتوں قبیلوں کے محاورے اور طرز پر اور کہیں کہیں اختلاف حرکات یا اختلاف حروف سے کوئی ضرر نہیں بشرطیکہ معانی اور مطالب میں فرق نہ آئے، جیسے سات قراتوں کے اختلاف سے ظاہر ہوتا ہے۔ علماءنے کہا ہے کہ قرآن مجید مشہور سات قراتوں میں سے ہر قرات کے موافق پڑھا جاسکتا ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن شاذ قرات کے ساتھ پڑھنا اکثر علماءنے درست نہیں رکھا جیسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی قراۃ حافظوا علی الصلوات و الصلوۃ الوسطی و صلوۃ العصر یا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرات فما استمتعتم منہن الی اجل مسمی۔ یعنی عرب کے ساتوں قبیلوں کے محاورے اور طرز پر اور کہیں کہیں اختلاف حرکات یا اختلاف حروف سے کوئی ضرر نہیں بشرطیکہ معانی اور مطالب میں فرق نہ آئے، جیسے سات قراتوں کے اختلاف سے ظاہر ہوتا ہے۔ علماءنے کہا ہے کہ قرآن مجید مشہور سات قراتوں میں سے ہر قرات کے موافق پڑھا جاسکتا ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن شاذ قرات کے ساتھ پڑھنا اکثر علماءنے درست نہیں رکھا جیسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی قراۃ حافظوا علی الصلوات و الصلوۃ الوسطی و صلوۃ العصر یا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرات فما استمتعتم منہن الی اجل مسمی۔