‌صحيح البخاري - حدیث 2418

كِتَابُ الخُصُومَاتِ بَابُ كَلاَمِ الخُصُومِ بَعْضِهِمْ فِي بَعْضٍ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ أَخْبَرَنَا يُونُسُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ تَقَاضَى ابْنَ أَبِي حَدْرَدٍ دَيْنًا كَانَ لَهُ عَلَيْهِ فِي الْمَسْجِدِ فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا حَتَّى سَمِعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي بَيْتِهِ فَخَرَجَ إِلَيْهِمَا حَتَّى كَشَفَ سِجْفَ حُجْرَتِهِ فَنَادَى يَا كَعْبُ قَالَ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ ضَعْ مِنْ دَيْنِكَ هَذَا فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ أَيْ الشَّطْرَ قَالَ لَقَدْ فَعَلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ قُمْ فَاقْضِهِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2418

کتاب: نالشوں اور جھگڑوں کے بیان میں باب : مدعی یا مدعی علیہ ایک دوسرے کی نسبت جو کہیں ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو یونس نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عبداللہ بن کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ انہوں نے ابن ابی حدرد رضی اللہ عنہ سے مسجد میں اپنے قرض کا تقاضا کیا۔ اور دونوں کی آواز اتنی بلند ہو گئی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی گھر میں سن لی۔ آپ نے حجرہ مبارک کا پردہ اٹھا کر پکارا اے کعب ! انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے قرض میں سے اتنا کم کر دے اور آپ نے آدھا قرض کم کردینے کا اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے کم کر دیا۔ پھر آپ نے ابن ابی حدرد رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اٹھ اب قرض ادا کردے۔
تشریح : جھگڑا طے کرانے کا ایک بہترین راستہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمایا۔ اور بے حد خوش قسمت ہیں وہ دونوں فریق جنہوں نے دل و جان سے آپ کا یہ فیصلہ منظور کر لیا۔ مقروض اگر تنگ دست ہے تو ایسی رعایت دینا ضروری ہو جاتا ہے۔ اور صاحب مال کو بہر صورت صبر اور شکر کے ساتھ جو ملے وہ لے لینا ضروری ہوجاتا ہے۔ جھگڑا طے کرانے کا ایک بہترین راستہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمایا۔ اور بے حد خوش قسمت ہیں وہ دونوں فریق جنہوں نے دل و جان سے آپ کا یہ فیصلہ منظور کر لیا۔ مقروض اگر تنگ دست ہے تو ایسی رعایت دینا ضروری ہو جاتا ہے۔ اور صاحب مال کو بہر صورت صبر اور شکر کے ساتھ جو ملے وہ لے لینا ضروری ہوجاتا ہے۔