‌صحيح البخاري - حدیث 2413

كِتَابُ الخُصُومَاتِ بَابُ مَا يُذْكَرُ فِي الإِشْخَاصِ وَالخُصُومَةِ بَيْنَ المُسْلِمِ وَاليَهُودِ صحيح حَدَّثَنَا مُوسَى حَدَّثَنَا هَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ يَهُودِيًّا رَضَّ رَأْسَ جَارِيَةٍ بَيْنَ حَجَرَيْنِ قِيلَ مَنْ فَعَلَ هَذَا بِكِ أَفُلَانٌ أَفُلَانٌ حَتَّى سُمِّيَ الْيَهُودِيُّ فَأَوْمَأَتْ بِرَأْسِهَا فَأُخِذَ الْيَهُودِيُّ فَاعْتَرَفَ فَأَمَرَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُضَّ رَأْسُهُ بَيْنَ حَجَرَيْنِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2413

کتاب: نالشوں اور جھگڑوں کے بیان میں باب : قرض دار کو پکڑ کر لے جانا اور مسلمان اور یہودی میں جھگڑا ہونے کا بیان ہم سے موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا تھا۔ ( اس میں کچھ جان باقی تھی ) اس سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ یہ کس نے کیا ہے؟ کیا فلاں نے، فلاں نے؟ جب اس یہودی کا نام آیا تو اس نے اپنے سر سے اشارہ کیا ( کہ ہاں ) یہودی پکڑا گیا اور اس نے بھی جرم کا اقرار کر لیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور اس کا سر بھی دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا گیا۔
تشریح : "علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ مقتولہ لڑکی انصار سے تھی۔ و عند الطحاوی عدا یہودی فی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ علی جاریۃ فاخذ اوضاخا کانت علیہا و رضح راسہا و الاوضاخ نوع من الحلی یعمل من الفضۃ و لمسلم فرضح راسہا بین حجرین و للترمذی خرجت جاریۃ علیہا اوضاح فاخذہا یہودی فرضح راسہا و اخذا ما علیہا من الحلی قال فادرکت و بہا رمق فاتی بہا النبی صلی اللہ علیہ وسلم قیل الحدیث یعنی زمانہ رسالت میں ایک یہودی ڈاکو نے ایک لڑکی پر حملہ کیا، جو چاندی کے کڑے پہنے ہوئے تھی۔ یہودی نے اس بچی کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا اور کڑے اس کے بدن سے اتار لیے چنانچہ وہ بچی اس حال میں کہ اس میں جان باقی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائی گئی اور اس نے اس یہودی کا یہ ڈاکہ ظاہر کر دیا۔ اس کی سزا میں یہودی کا بھی سر دو پتھروں کے درمیان کچل کر اس کو ہلاک کیا گیا۔ احتج بہ المالکیۃ و الشافعیۃ و الحنابلۃ و الجمہور علی ان من قتل بشی یقتل بمثلہ ( قسطلانی ) یعنی مالکیہ اور شافعیہ اور حنابلہ اور جمہور نے اس سے دلیل پکڑی ہے کہ جو شخص کسی چیز سے کسی کو قتل کرے گا اسی کے مثل سے اس کو بھی قتل کیا جائے گا۔ قصاص کا تقاضا بھی یہی ہے۔ مگر حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے اس کے خلاف ہے۔ وہ مماثلت کے قائل نہیں ہیں اور یہاں جو مذکور ہے اسے محض سیاسی اور تعزیری حیثیت دیتے ہیں۔ قانونی حیثیت سے اسے تسلیم نہیں کرتے مگر آپ کا یہ خیال حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے قابل قبول نہیں ہے۔ حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ نے خود فرما دیا ہے اذا صح الحدیث فہو مذہبی جب صحیح حدیث مل جائے تو وہی میرا مذہب ہے۔ " "علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ مقتولہ لڑکی انصار سے تھی۔ و عند الطحاوی عدا یہودی فی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ علی جاریۃ فاخذ اوضاخا کانت علیہا و رضح راسہا و الاوضاخ نوع من الحلی یعمل من الفضۃ و لمسلم فرضح راسہا بین حجرین و للترمذی خرجت جاریۃ علیہا اوضاح فاخذہا یہودی فرضح راسہا و اخذا ما علیہا من الحلی قال فادرکت و بہا رمق فاتی بہا النبی صلی اللہ علیہ وسلم قیل الحدیث یعنی زمانہ رسالت میں ایک یہودی ڈاکو نے ایک لڑکی پر حملہ کیا، جو چاندی کے کڑے پہنے ہوئے تھی۔ یہودی نے اس بچی کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا اور کڑے اس کے بدن سے اتار لیے چنانچہ وہ بچی اس حال میں کہ اس میں جان باقی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائی گئی اور اس نے اس یہودی کا یہ ڈاکہ ظاہر کر دیا۔ اس کی سزا میں یہودی کا بھی سر دو پتھروں کے درمیان کچل کر اس کو ہلاک کیا گیا۔ احتج بہ المالکیۃ و الشافعیۃ و الحنابلۃ و الجمہور علی ان من قتل بشی یقتل بمثلہ ( قسطلانی ) یعنی مالکیہ اور شافعیہ اور حنابلہ اور جمہور نے اس سے دلیل پکڑی ہے کہ جو شخص کسی چیز سے کسی کو قتل کرے گا اسی کے مثل سے اس کو بھی قتل کیا جائے گا۔ قصاص کا تقاضا بھی یہی ہے۔ مگر حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے اس کے خلاف ہے۔ وہ مماثلت کے قائل نہیں ہیں اور یہاں جو مذکور ہے اسے محض سیاسی اور تعزیری حیثیت دیتے ہیں۔ قانونی حیثیت سے اسے تسلیم نہیں کرتے مگر آپ کا یہ خیال حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے قابل قبول نہیں ہے۔ حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ نے خود فرما دیا ہے اذا صح الحدیث فہو مذہبی جب صحیح حدیث مل جائے تو وہی میرا مذہب ہے۔ "