كِتَابُ فِي الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ بَابٌ: العَبْدُ رَاعٍ فِي مَالِ سَيِّدِهِ، وَلاَ يَعْمَلُ إِلَّا بِإِذْنِهِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ فَالْإِمَامُ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ فِي أَهْلِهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالْمَرْأَةُ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا رَاعِيَةٌ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا وَالْخَادِمُ فِي مَالِ سَيِّدِهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ قَالَ فَسَمِعْتُ هَؤُلَاءِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَحْسِبُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَالرَّجُلُ فِي مَالِ أَبِيهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ
کتاب: قرض لینے، ادا کرنے ، حجر اور مفلسی منظور کرنے کے بیان میں
باب : غلام اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے اس کی اجازت کے بغیر اس میں کوئی تصرف نہ کرے
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا انہیں سالم بن عبداللہ نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا، تم میں سے ہر فرد ایک طرح کا حاکم ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہوگا۔ پس بادشاہ حاکم ہی ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہوگا۔ ہر انسان اپنے گھر کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ خادم اپنے آقا کے مال کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ انہوں نے بیان کیا کہ یہ سب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناتھا۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ مرد اپنے والد کے مال کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ پس ہر شخص حاکم ہے اور ہر شخص سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔
تشریح :
یہ حدیث ایک بہت بڑے تمدنی اصل الاصول پر مشتمل ہے۔ دنیا میں کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہے جس کی کچھ نہ کچھ ذمہ داریاں نہ ہوں۔ ان ذمہ داریوں کو محسوس کرکے صحیح طور پر ادا کرنا عین شرعی مطالبہ ہے۔ ایک حاکم بادشاہ اپنی رعایا کا ذمہ دار ہے، گھر میں مرد جملہ اہل خانہ پر حاکم ہے۔ عورت گھر کی مالکہ ہونے کی حیثیت سے گھر اور اولاد کی ذمہ دار ہے۔ ایک غلام اپنے آقا کے مال میں ذمہ دار ہے۔ ایک مرد اپنے والد کے مال کا ذمہ دار ہے الغرض اسی سلسلہ میں تقریباً دنیا کا ہر انسان بندھا ہوا ہے۔ پس ضروری ہے کہ ہر شخص اپنی ذمہ داریوں کوادا کرے۔ حاکم کا فرض ہے اپنی حکومت کے ہر کہ رومہ پر نظر شفقت رکھے۔ ایک مرد کا فرض ہے کہ اپنے جملہ اہل خانہ پر توجہ رکھے۔ ایک عورت کا فرض ہے کہ اپنے شوہر کے گھر کی ہر طرح سے پوری پوری حفاظت کرے۔ اس کی دولت اور اولاد اور عزت میں کوئی خیانت نہ کرے۔ ایک غلام، نوکر، مزدور کا فرض ہے کہ اپنے فرائض متعلقہ کی ادائیگی میں اللہ کا خوف کرکے کوتاہی نہ کرے۔ یہی باب کا مقصد ہے۔
یہ حدیث ایک بہت بڑے تمدنی اصل الاصول پر مشتمل ہے۔ دنیا میں کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہے جس کی کچھ نہ کچھ ذمہ داریاں نہ ہوں۔ ان ذمہ داریوں کو محسوس کرکے صحیح طور پر ادا کرنا عین شرعی مطالبہ ہے۔ ایک حاکم بادشاہ اپنی رعایا کا ذمہ دار ہے، گھر میں مرد جملہ اہل خانہ پر حاکم ہے۔ عورت گھر کی مالکہ ہونے کی حیثیت سے گھر اور اولاد کی ذمہ دار ہے۔ ایک غلام اپنے آقا کے مال میں ذمہ دار ہے۔ ایک مرد اپنے والد کے مال کا ذمہ دار ہے الغرض اسی سلسلہ میں تقریباً دنیا کا ہر انسان بندھا ہوا ہے۔ پس ضروری ہے کہ ہر شخص اپنی ذمہ داریوں کوادا کرے۔ حاکم کا فرض ہے اپنی حکومت کے ہر کہ رومہ پر نظر شفقت رکھے۔ ایک مرد کا فرض ہے کہ اپنے جملہ اہل خانہ پر توجہ رکھے۔ ایک عورت کا فرض ہے کہ اپنے شوہر کے گھر کی ہر طرح سے پوری پوری حفاظت کرے۔ اس کی دولت اور اولاد اور عزت میں کوئی خیانت نہ کرے۔ ایک غلام، نوکر، مزدور کا فرض ہے کہ اپنے فرائض متعلقہ کی ادائیگی میں اللہ کا خوف کرکے کوتاہی نہ کرے۔ یہی باب کا مقصد ہے۔