كِتَابُ فِي الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ بَابُ مَا يُنْهَى عَنْ إِضَاعَةِ المَالِ صحيح حَدَّثَنَا عُثْمَانُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ وَرَّادٍ مَوْلَى الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَيْكُمْ عُقُوقَ الْأُمَّهَاتِ وَوَأْدَ الْبَنَاتِ وَمَنَعَ وَهَاتِ وَكَرِهَ لَكُمْ قِيلَ وَقَالَ وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ وَإِضَاعَةَ الْمَالِ
کتاب: قرض لینے، ادا کرنے ، حجر اور مفلسی منظور کرنے کے بیان میں
باب : مال کو تباہ کرنا یعنی بے جا اسراف منع ہے
ہم سے عثمان بن ابی شبیہ نے بیان کیا، ان سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے شعبی نے، ان سے مغیرہ بن شعبہ کے غلام وراد نے اور ان سے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے تم پر ماں ( اور باپ ) کی نافرمانی لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا، ( واجب حقوق کی ) ادائیگی نہ کرنا اور ( دوسروں کا مال ناجائز طریقہ پر ) دبالینا حرام قرار دیا ہے۔ اور فضول بکواس کرنے اورکثرت سے سوال کرنے اور مال ضائع کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔
تشریح :
"لفظ منع وہات کا ترجمہ بعض نے یوں کیا ہے اپنے اوپر جو حق واجب ہے جیسے زکوٰۃ، بال بچوں، ناتے والوں کی پرورش، وہ نہ دینا۔ اور جس کا لینا حرام ہے یعنی پرایا مال وہ لے لینا، قیل و قال کا مطلب خواہ مخواہ اپنا علم جتانے کے لیے لوگوں سے سوالات کرنا۔ یا بے ضرورت حالا ت پوچھنا۔ کیوں کہ یہ لوگوں کو برا معلوم ہوتا ہے۔ بعض بات وہ بیان کرنا نہیں چاہتے۔ اس کے پوچھنے سے ناخوش ہوتے ہیں۔
تشریح : ترجمہ باب لفظ اضاعۃ المال سے نکلتا ہے یعنی مال ضائع کرنا مکروہ ہے۔ قسطلانی نے کہا مال برباد کرنا یہ ہے کہ کھانے پینے لباس وغیرہ میں بے ضرورت تکلف کرنا۔ باسن پر سونے چاندی کا ملمع کرانا۔ دیوار چھت وغیرہ سونے چاندی سے رنگنا، سعید بن جبیر نے کہا مال برباد کرنا یہ ہے کہ حرام کاموں میں خرچ کرے اور صحیح یہی ہے کہ خلاف شرع جو خرچ ہو، خواہ دینی یا دنیاوی کام میں، وہ برباد کرے میں داخل ہے۔ بہرحال جو کام شرعاً منع ہیں جیسے پتنگ بازی، مرغ بازی، آتش بازی، ناچ رنگ ان میں تو ایک پیسہ بھی خرچ کرنا حرام ہے۔ اور جو کام ثواب کے ہیں مثلاً محتاجوں، مسافروں، غریبوں، بیماروں کی خدمت، قومی کام جیسے مدرسے، پل، سرائے، مسجد، محتاج خانے، شفا خانے بنانا، ان میں جتنا خرچ کرے وہ ثواب ہی ثواب ہے۔ اس کو برباد کرنا نہیں کہہ سکتے۔ رہ گیا اپنے نفس کی لذت میں خرچ کرنا تو اپنی حیثیت اور حالت کے موافق اس میں خرچ کرنا اسراف نہیں ہے۔ اسی طرح اپنی عزت یا آبرو بچانے کے لیے یاکسی آفت کو روکنے کے لیے۔ اس کے سوا بے ضرورت نفسانی خواہشوں میں مال خرچ کرنا مثلاً بے فائدہ بہت سے کپڑے بنا لینا، یا بہت سے گھوڑے رکھنا، یا بہت سا سامان خریدنا یہ بھی اسراف میں داخل ہے۔ "
"لفظ منع وہات کا ترجمہ بعض نے یوں کیا ہے اپنے اوپر جو حق واجب ہے جیسے زکوٰۃ، بال بچوں، ناتے والوں کی پرورش، وہ نہ دینا۔ اور جس کا لینا حرام ہے یعنی پرایا مال وہ لے لینا، قیل و قال کا مطلب خواہ مخواہ اپنا علم جتانے کے لیے لوگوں سے سوالات کرنا۔ یا بے ضرورت حالا ت پوچھنا۔ کیوں کہ یہ لوگوں کو برا معلوم ہوتا ہے۔ بعض بات وہ بیان کرنا نہیں چاہتے۔ اس کے پوچھنے سے ناخوش ہوتے ہیں۔
تشریح : ترجمہ باب لفظ اضاعۃ المال سے نکلتا ہے یعنی مال ضائع کرنا مکروہ ہے۔ قسطلانی نے کہا مال برباد کرنا یہ ہے کہ کھانے پینے لباس وغیرہ میں بے ضرورت تکلف کرنا۔ باسن پر سونے چاندی کا ملمع کرانا۔ دیوار چھت وغیرہ سونے چاندی سے رنگنا، سعید بن جبیر نے کہا مال برباد کرنا یہ ہے کہ حرام کاموں میں خرچ کرے اور صحیح یہی ہے کہ خلاف شرع جو خرچ ہو، خواہ دینی یا دنیاوی کام میں، وہ برباد کرے میں داخل ہے۔ بہرحال جو کام شرعاً منع ہیں جیسے پتنگ بازی، مرغ بازی، آتش بازی، ناچ رنگ ان میں تو ایک پیسہ بھی خرچ کرنا حرام ہے۔ اور جو کام ثواب کے ہیں مثلاً محتاجوں، مسافروں، غریبوں، بیماروں کی خدمت، قومی کام جیسے مدرسے، پل، سرائے، مسجد، محتاج خانے، شفا خانے بنانا، ان میں جتنا خرچ کرے وہ ثواب ہی ثواب ہے۔ اس کو برباد کرنا نہیں کہہ سکتے۔ رہ گیا اپنے نفس کی لذت میں خرچ کرنا تو اپنی حیثیت اور حالت کے موافق اس میں خرچ کرنا اسراف نہیں ہے۔ اسی طرح اپنی عزت یا آبرو بچانے کے لیے یاکسی آفت کو روکنے کے لیے۔ اس کے سوا بے ضرورت نفسانی خواہشوں میں مال خرچ کرنا مثلاً بے فائدہ بہت سے کپڑے بنا لینا، یا بہت سے گھوڑے رکھنا، یا بہت سا سامان خریدنا یہ بھی اسراف میں داخل ہے۔ "