كِتَابُ فِي الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ بَابُ الشَّفَاعَةِ فِي وَضْعِ الدَّيْنِ صحيح وَغَزَوْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نَاضِحٍ لَنَا فَأَزْحَفَ الْجَمَلُ فَتَخَلَّفَ عَلَيَّ فَوَكَزَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خَلْفِهِ قَالَ بِعْنِيهِ وَلَكَ ظَهْرُهُ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلَمَّا دَنَوْنَا اسْتَأْذَنْتُ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي حَدِيثُ عَهْدٍ بِعُرْسٍ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا تَزَوَّجْتَ بِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا قُلْتُ ثَيِّبًا أُصِيبَ عَبْدُ اللَّهِ وَتَرَكَ جَوَارِيَ صِغَارًا فَتَزَوَّجْتُ ثَيِّبًا تُعَلِّمُهُنَّ وَتُؤَدِّبُهُنَّ ثُمَّ قَالَ ائْتِ أَهْلَكَ فَقَدِمْتُ فَأَخْبَرْتُ خَالِي بِبَيْعِ الْجَمَلِ فَلَامَنِي فَأَخْبَرْتُهُ بِإِعْيَاءِ الْجَمَلِ وَبِالَّذِي كَانَ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَكْزِهِ إِيَّاهُ فَلَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَوْتُ إِلَيْهِ بِالْجَمَلِ فَأَعْطَانِي ثَمَنَ الْجَمَلِ وَالْجَمَلَ وَسَهْمِي مَعَ الْقَوْمِ
کتاب: قرض لینے، ادا کرنے ، حجر اور مفلسی منظور کرنے کے بیان میں
باب : قرض میں کمی کی سفارش کرنا
اور ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جہاد میں ایک اونٹ پر سوار ہو کر گیا۔ اونٹ تھک گیا۔ اس لیے میں لوگوں سے پیچھے رہ گیا۔ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیچھے سے مارا اور فرمایا کہ یہ اونٹ مجھے بیچ دو۔ مدینہ تک اس پر سواری کی تمہیں اجازت ہے۔ پھر جب ہم مدینہ سے قریب ہوئے تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی، عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں نے ابھی نئی شادی کی ہے۔ آپ نے دریافت فرمایا، کنواری سے کی ہے یا بیوہ سے؟ میں نے کہا کہ بیوہ سے۔ میرے والد عبداللہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو اپنے پیچھے کئی چھوٹی بچیاں چھوڑ گئے ہیں۔ اس لیے میں نے بیوہ سے کی تاکہ انہیں تعلیم دے اور ادب سکھاتی رہے۔ پھر آپ نے فرمایا، اچھا اب اپنے گھر جاؤ۔ چنانچہ میں گھر گیا۔ میں نے جب اپنے ماموں سے اونٹ بیچنے کا ذکر کیا تو انہوں نے مجھے ملامت کی۔ اس لیے میں نے ان سے اونٹ کے تھک جانے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعہ کا بھی ذکر کیا۔ اور آپ کے اونٹ کو مارنے کا بھی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو میں بھی صبح کے وقت اونٹ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے مجھے اونٹ کی قیمت بھی دے دی، اور وہ اونٹ بھی مجھے واپس بخش دیا اور قوم کے ساتھ میرا ( مال غنیمت کا ) حصہ بھی مجھ کو بخش دیا۔
تشریح :
ماموں نے اس وجہ سے ملامت کی ہوگی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اونٹ بیچنا کیا ضروری تھا۔ یوں ہی آپ کو دے دیا ہوتا۔ بعض نے کہا کہ اس بات پر کہ ایک ہی اونٹ ہمارے پاس تھا اس سے گھر کا کام کاج نکلتا تھا وہ بھی تو نے بیچ ڈالا۔ اب تکلیف ہوگی۔ بعض نے کہا ماموں سے جد بن قیس مراد ہے وہ منافق تھا۔
ماموں نے اس وجہ سے ملامت کی ہوگی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اونٹ بیچنا کیا ضروری تھا۔ یوں ہی آپ کو دے دیا ہوتا۔ بعض نے کہا کہ اس بات پر کہ ایک ہی اونٹ ہمارے پاس تھا اس سے گھر کا کام کاج نکلتا تھا وہ بھی تو نے بیچ ڈالا۔ اب تکلیف ہوگی۔ بعض نے کہا ماموں سے جد بن قیس مراد ہے وہ منافق تھا۔