كِتَابُ فِي الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ بَابٌ: إِذَا وَجَدَ مَالَهُ عِنْدَ مُفْلِسٍ فِي البَيْعِ، وَالقَرْضِ وَالوَدِيعَةِ، فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ صحيح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا بَكْرِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ أَدْرَكَ مَالَهُ بِعَيْنِهِ عِنْدَ رَجُلٍ أَوْ إِنْسَانٍ قَدْ أَفْلَسَ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ مِنْ غَيْرِهِ
کتاب: قرض لینے، ادا کرنے ، حجر اور مفلسی منظور کرنے کے بیان میں
باب : اگر بیع یا قرض یا امانت کا مال بجنسہ دیوالیہ شخص کے پاس مل جائے تو جس کا وہ مال ہے دوسرے قرض خواہوں سے زیادہ اس کا حق دار ہوگا
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، ان سے زہیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ان سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم نے خبر دی۔ انہیں عمر بن عبدالعزیز نے خبر دی، انہیں ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام نے خبر دی، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یایہ بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، جو شخص ہو بہو اپنا مال کسی شخص کے پاس پا لے جب کہ وہ شخص دیوالیہ قرار دیا جا چکا ہو تو صاحب مال ہی اس کا دوسروں کے مقابلے میں زیادہ مستحق ہے۔
تشریح :
"اگر وہ چیز بدل گئی، مثلاً سونا خریدا تھا اس کا زیور بنا ڈالا تو اب سب قرض خواہوں کا حق اس میں برابر ہوگا۔ حنفیہ نے اس حدیث کے خلاف اپنا مذہب قرار دیا ہے اور قیاس پر عمل کیا ہے حالانکہ وہ دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ قیاس کو حدیث کے مخالف ترک کر دینا چاہئے۔
حدیث اپنے مضمون میں واضح ہے کہ جب کسی شخص نے کسی شخص سے کوئی چیز خریدی اوراس پر قبضہ بھی کر لیا، لیکن قیمت نہیں ادا کی تھی کہ وہ دیوالیہ ہو گیا۔ پس اگر وہ اصل سامان اس کے پاس موجود ہے تو اس کا مستحق بیچنے والا ہی ہوگا اور دوسرے قرض خواہوں کا اس میں کوئی حق نہ ہوگا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مسلک ہے جو حدیث ہذا سے ظاہر ہے۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا فتوی بھی یہی ہے۔ "
"اگر وہ چیز بدل گئی، مثلاً سونا خریدا تھا اس کا زیور بنا ڈالا تو اب سب قرض خواہوں کا حق اس میں برابر ہوگا۔ حنفیہ نے اس حدیث کے خلاف اپنا مذہب قرار دیا ہے اور قیاس پر عمل کیا ہے حالانکہ وہ دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ قیاس کو حدیث کے مخالف ترک کر دینا چاہئے۔
حدیث اپنے مضمون میں واضح ہے کہ جب کسی شخص نے کسی شخص سے کوئی چیز خریدی اوراس پر قبضہ بھی کر لیا، لیکن قیمت نہیں ادا کی تھی کہ وہ دیوالیہ ہو گیا۔ پس اگر وہ اصل سامان اس کے پاس موجود ہے تو اس کا مستحق بیچنے والا ہی ہوگا اور دوسرے قرض خواہوں کا اس میں کوئی حق نہ ہوگا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مسلک ہے جو حدیث ہذا سے ظاہر ہے۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا فتوی بھی یہی ہے۔ "