‌صحيح البخاري - حدیث 240

كِتَابُ الوُضُوءِ بَابُ إِذَا أُلْقِيَ عَلَى ظَهْرِ المُصَلِّي قَذَرٌ أَوْ جِيفَةٌ، لَمْ تَفْسُدْ عَلَيْهِ صَلاَتُهُ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاجِدٌ قَالَ: ح وحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُرَيْحُ بْنُ مَسْلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مَيْمُونٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي عِنْدَ البَيْتِ، وَأَبُو جَهْلٍ وَأَصْحَابٌ لَهُ جُلُوسٌ، إِذْ قَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: أَيُّكُمْ يَجِيءُ بِسَلَى جَزُورِ بَنِي فُلاَنٍ، فَيَضَعُهُ عَلَى ظَهْرِ مُحَمَّدٍ إِذَا سَجَدَ؟ فَانْبَعَثَ أَشْقَى القَوْمِ فَجَاءَ بِهِ، فَنَظَرَ حَتَّى سَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَضَعَهُ عَلَى ظَهْرِهِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ، وَأَنَا أَنْظُرُ لاَ أُغْنِي شَيْئًا، لَوْ كَانَ لِي مَنَعَةٌ، قَالَ: فَجَعَلُوا يَضْحَكُونَ وَيُحِيلُ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاجِدٌ لاَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ، حَتَّى جَاءَتْهُ فَاطِمَةُ، فَطَرَحَتْ عَنْ ظَهْرِهِ، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ». ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، فَشَقَّ عَلَيْهِمْ إِذْ دَعَا عَلَيْهِمْ، قَالَ: وَكَانُوا يَرَوْنَ أَنَّ الدَّعْوَةَ فِي ذَلِكَ البَلَدِ مُسْتَجَابَةٌ، ثُمَّ سَمَّى: «اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِأَبِي جَهْلٍ، وَعَلَيْكَ بِعُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَشَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَالوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ، وَأُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ، وَعُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ» - وَعَدَّ السَّابِعَ فَلَمْ يَحْفَظْ -، قَالَ: فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَقَدْ رَأَيْتُ الَّذِينَ عَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَرْعَى، فِي القَلِيبِ قَلِيبِ بَدْرٍ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 240

کتاب: وضو کے بیان میں باب: جب نمازی کی پشت پر کوئی نجاست ڈال دی ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا مجھے میرے باپ ( عثمان ) نے شعبہ سے خبر دی، انھوں نے ابواسحاق سے، انھوں نے عمرو بن میمون سے، انھوں نے عبداللہ سے وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ شریف میں سجدہ میں تھے۔ ( ایک دوسری سند سے ) ہم سے احمد بن عثمان نے بیان کیا، کہا ہم سے شریح بن مسلمہ نے، کہا ہم سے ابراہیم بن یوسف نے اپنے باپ کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابواسحاق سے روایت کرتے ہیں۔ ان سے عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود نے ان سے حدیث بیان کی کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے نزدیک نماز پڑھ رہے تھے اور ابوجہل اور اس کے ساتھی ( بھی وہیں ) بیٹھے ہوئے تھے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم میں سے کوئی شخص ہے جو قبیلے کی ( جو ) اونٹنی ذبح ہوئی ہے ( اس کی ) اوجھڑی اٹھا لائے اور ( لا کر ) جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جائیں تو ان کی پیٹھ پر رکھ دے۔ یہ سن کر ان میں سے ایک سب سے زیادہ بدبخت ( آدمی ) اٹھا اور وہ اوجھڑی لے کر آیا اور دیکھتا رہا جب آپ نے سجدہ کیا تو اس نے اس اوجھڑی کو آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا ( عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں ) میں یہ ( سب کچھ ) دیکھ رہا تھا مگر کچھ نہ کر سکتا تھا۔ کاش! ( اس وقت ) مجھے روکنے کی طاقت ہوتی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ ہنسنے لگے اور ( ہنسی کے مارے ) لوٹ پوٹ ہونے لگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں تھے ( بوجھ کی وجہ سے ) اپنا سر نہیں اٹھا سکتے تھے۔ یہاں تک کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور وہ بوجھ آپ کی پیٹھ سے اتار کر پھینکا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا پھر تین بار فرمایا۔ یا اللہ! تو قریش کو پکڑ لے، یہ ( بات ) ان کافروں پر بہت بھاری ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بددعا دی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ سمجھتے تھے کہ اس شہر ( مکہ ) میں جو دعا کی جائے وہ ضرور قبول ہوتی ہے پھر آپ نے ( ان میں سے ) ہر ایک کا ( جدا جدا ) نام لیا کہ اے اللہ! ان ظالموں کو ضرور ہلاک کر دے۔ ابوجہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو۔ ساتویں ( آدمی ) کا نام ( بھی ) لیا مگر مجھے یاد نہیں رہا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ جن لوگوں کے ( بددعا کرتے وقت ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لیے تھے، میں نے ان کی ( لاشوں ) کو بدر کے کنویں میں پڑا ہوا دیکھا۔
تشریح : اس حدیث سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اگرنماز پڑھتے ہوئے اتفاقاً کوئی نجاست پشت پر آپڑے تونماز ہوجائے گی۔ اوجھڑی لانے والا بدبخت عقبہ بن ابی معیط تھا۔ یہ سب لوگ بدر کی لڑائی میں واصل جہنم ہوئے۔ عمارہ بن ولید حبش کے ملک میں مرا۔ یہ کیوں کر ممکن تھا کہ مظلوم رسول کی دعا قبول نہ ہو۔ اس حدیث سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اگرنماز پڑھتے ہوئے اتفاقاً کوئی نجاست پشت پر آپڑے تونماز ہوجائے گی۔ اوجھڑی لانے والا بدبخت عقبہ بن ابی معیط تھا۔ یہ سب لوگ بدر کی لڑائی میں واصل جہنم ہوئے۔ عمارہ بن ولید حبش کے ملک میں مرا۔ یہ کیوں کر ممکن تھا کہ مظلوم رسول کی دعا قبول نہ ہو۔