كِتَابُ الإِيمَانِ بَابٌ: الحَيَاءُ مِنَ الإِيمَانِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ، وَهُوَ يَعِظُ أَخَاهُ فِي الحَيَاءِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «دَعْهُ فَإِنَّ الحَيَاءَ مِنَ الإِيمَانِ»
کتاب: ایمان کے بیان میں
باب:شرم و حیا بھی ایمان سے ہے
عبداللہ ابن یوسف نے ہم سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں مالک بن انس نے ابن شہاب سے خبر دی، وہ سالم بن عبداللہ سے نقل کرتے ہیں، وہ اپنے باپ ( عبداللہ بن عمر ) سے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری شخص کے پاس سے گزرے اس حال میں کہ وہ اپنے ایک بھائی سے کہہ رہے تھے کہ تم اتنی شرم کیوں کرتے ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انصاری سے فرمایا کہ اس کو اس کے حال پر رہنے دو کیونکہ حیا بھی ایمان ہی کا ایک حصہ ہے۔
تشریح :
بخاری کتاب الادب میں یہی روایت ابن شہاب سے آئی ہے۔ اس میں لفظ یعظ کی جگہ یعاتب ہے۔ جس سے ظاہر ہے کہ وہ انصاری اس کو اس بارے میں عتاب کررہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری سے فرمایا اسے اس کی حالت پر رہنے دو۔ حیا ایمان ہی کا حصہ ہے۔
حیا کی حقیقت یہ ہے کہ انسان برائی کی نسبت اپنے نام کے ساتھ ہونے سے ڈرے۔ حرام امورمیں حیا کرنا واجب ہے اور مکروہات میں بھی حیا کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ الحیاءلایاتی الابخیر کا یہی مطلب ہے کہ حیا خیر ہی خیرلاتی ہے۔ بعض سلف کا قول ہے۔ خف اللہ علی قدرتہ علیک واستحی منہ علی قدرتہ قربہ منک۔ اللہ کا خوف پیدا کرو اس اندازہ کے مطابق کہ وہ تمہارے اوپر کتنی زبردست قدرت رکھتا ہے اور اس سے شرم رکھو یہ اندازہ کرتے ہوئے کہ وہ تم سے کس قدر قریب ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ کا خوف پورے طور پر ہو کہ تمہارے اوپر اپنی قدرت کامل رکھتا ہے جب وہ چاہے اور جس طرح چاہے تم کو پکڑے اور اس سے شرم وحیا بھی اس خیال سے ہونی چاہئیے کہ وہ تمہاری شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔
الغرض حیا اور شرم انسان کا ایک فطری نیک جذبہ ہے جو اسے بے حیائی سے روک دیتا ہے اور اس کے طفیل وہ بہت سے گناہوں کے ارتکاب سے بچ جاتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ حیا سے مراد وہ بے جاشرم نہیں ہے جس کی وجہ سے انسان کی جرات عمل ہی مفقود ہوجائے۔ وہ اپنے ضروری فرائض کی ادائیگی میں بھی شرم وحیا کا بہانہ تلاش کرنے لگے۔ حضرت امام المحدثین اس حدیث کی نقل سے بھی مرجیہ کی تردید کرنا چاہتے ہیں جو ایمان کو صرف قول بلاعمل مانتے ہیں۔ حالانکہ کتاب اللہ وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امیں جملہ اعمال صالحہ وعادات سیئہ کو ایمان ہی کے اجزا قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ حدیث بالاسے ظاہر ہے کہ حیاشرم جیسی پاکیزہ عادت بھی ایمان میں داخل ہے۔
بخاری کتاب الادب میں یہی روایت ابن شہاب سے آئی ہے۔ اس میں لفظ یعظ کی جگہ یعاتب ہے۔ جس سے ظاہر ہے کہ وہ انصاری اس کو اس بارے میں عتاب کررہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری سے فرمایا اسے اس کی حالت پر رہنے دو۔ حیا ایمان ہی کا حصہ ہے۔
حیا کی حقیقت یہ ہے کہ انسان برائی کی نسبت اپنے نام کے ساتھ ہونے سے ڈرے۔ حرام امورمیں حیا کرنا واجب ہے اور مکروہات میں بھی حیا کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ الحیاءلایاتی الابخیر کا یہی مطلب ہے کہ حیا خیر ہی خیرلاتی ہے۔ بعض سلف کا قول ہے۔ خف اللہ علی قدرتہ علیک واستحی منہ علی قدرتہ قربہ منک۔ اللہ کا خوف پیدا کرو اس اندازہ کے مطابق کہ وہ تمہارے اوپر کتنی زبردست قدرت رکھتا ہے اور اس سے شرم رکھو یہ اندازہ کرتے ہوئے کہ وہ تم سے کس قدر قریب ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ کا خوف پورے طور پر ہو کہ تمہارے اوپر اپنی قدرت کامل رکھتا ہے جب وہ چاہے اور جس طرح چاہے تم کو پکڑے اور اس سے شرم وحیا بھی اس خیال سے ہونی چاہئیے کہ وہ تمہاری شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔
الغرض حیا اور شرم انسان کا ایک فطری نیک جذبہ ہے جو اسے بے حیائی سے روک دیتا ہے اور اس کے طفیل وہ بہت سے گناہوں کے ارتکاب سے بچ جاتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ حیا سے مراد وہ بے جاشرم نہیں ہے جس کی وجہ سے انسان کی جرات عمل ہی مفقود ہوجائے۔ وہ اپنے ضروری فرائض کی ادائیگی میں بھی شرم وحیا کا بہانہ تلاش کرنے لگے۔ حضرت امام المحدثین اس حدیث کی نقل سے بھی مرجیہ کی تردید کرنا چاہتے ہیں جو ایمان کو صرف قول بلاعمل مانتے ہیں۔ حالانکہ کتاب اللہ وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امیں جملہ اعمال صالحہ وعادات سیئہ کو ایمان ہی کے اجزا قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ حدیث بالاسے ظاہر ہے کہ حیاشرم جیسی پاکیزہ عادت بھی ایمان میں داخل ہے۔