كِتَابُ فِي الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ بَابُ أَدَاءِ الدَّيْنِ صحيح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ شَبِيبِ بْنِ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ يُونُسَ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ قَالَ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ كَانَ لِي مِثْلُ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا يَسُرُّنِي أَنْ لَا يَمُرَّ عَلَيَّ ثَلَاثٌ وَعِنْدِي مِنْهُ شَيْءٌ إِلَّا شَيْءٌ أُرْصِدُهُ لِدَيْنٍ رَوَاهُ صَالِحٌ وَعُقَيْلٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ
کتاب: قرض لینے، ادا کرنے ، حجر اور مفلسی منظور کرنے کے بیان میں
باب : قرضوں کا ادا کرنا
ہم سے احمد بن شبیب بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے یونس نے کہ ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بیان کیا، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تب بھی مجھے یہ پسند نہیں کہ تین دن گزر جائیں اور اس ( سونے ) کا کوئی حصہ میرے پاس رہ جائے۔ سوا اس کے جو میں کسی قرض کے دینے کے لیے رکھ چھوڑوں۔ اس کی روایت صالح اور عقیل نے زہری سے کی ہے۔
تشریح :
باب کا مطلب اس فقرے سے نکلتا ہے۔ مگر وہ دینار تو رہے جس کو میں نے قرضہ ادا کرنے کے لیے رکھ لیا ہو۔ کیوں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرض ادا کرنے کی فکر ہر شخص کو کرنا چاہئے۔ اور اس کا ادا کرنا خیرات کرنے پر مقدم ہے۔ اب اس میں اختلاف ہے کہ خیرات کرنے کے لیے کوئی شخص بلا ضرورت قرض لے تو جائز ہے یا نہیں۔ اور صحیح یہ ہے کہ ادا کرنے کی نیت ہو تو جائز ہے بلکہ ثواب ہے۔ عبداللہ بن جعفر بے ضرورت قرض لیا کرتے تھے۔ لوگوں نے پوچھا، انہوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ قرض دار کے ساتھ ہے یہاں تک کہ وہ اپنا قرض ادا کردے۔ میں چاہتا ہوں کہ اللہ میرے ساتھ رہے اور تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ جو شخص نیک کاموں میں خرچ کرنے کی وجہ سے قرض دار ہو جائے تو پروردگار اس کا قرض غیب سے ادا کرا دیتا ہے۔ مگر ایسی کیمیا صفت شخصیتیں آج کل نایاب ہیں۔ بہ حالات موجود قرض کسی حال میں بھی اچھا نہیں ہے یوں مجبوری میں سب کچھ کرنا پڑتا ہے مگر خیر خیرات کرنے کے لیے قرض نکالنا تو آج کسی طرح بھی زیبا نہیں۔ کیوں کہ ادائیگی کا معاملہ بہت ہی پریشان کن بن جاتا ہے۔ پھر ایسا مقروض آدمی دین اور دنیا ہر لحاظ سے گر جاتا ہے۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو قرض سے بچائے۔ اور مسلمان قرض داروں کا غیب سے قرض ادا کرائے۔ آمین
باب کا مطلب اس فقرے سے نکلتا ہے۔ مگر وہ دینار تو رہے جس کو میں نے قرضہ ادا کرنے کے لیے رکھ لیا ہو۔ کیوں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرض ادا کرنے کی فکر ہر شخص کو کرنا چاہئے۔ اور اس کا ادا کرنا خیرات کرنے پر مقدم ہے۔ اب اس میں اختلاف ہے کہ خیرات کرنے کے لیے کوئی شخص بلا ضرورت قرض لے تو جائز ہے یا نہیں۔ اور صحیح یہ ہے کہ ادا کرنے کی نیت ہو تو جائز ہے بلکہ ثواب ہے۔ عبداللہ بن جعفر بے ضرورت قرض لیا کرتے تھے۔ لوگوں نے پوچھا، انہوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ قرض دار کے ساتھ ہے یہاں تک کہ وہ اپنا قرض ادا کردے۔ میں چاہتا ہوں کہ اللہ میرے ساتھ رہے اور تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ جو شخص نیک کاموں میں خرچ کرنے کی وجہ سے قرض دار ہو جائے تو پروردگار اس کا قرض غیب سے ادا کرا دیتا ہے۔ مگر ایسی کیمیا صفت شخصیتیں آج کل نایاب ہیں۔ بہ حالات موجود قرض کسی حال میں بھی اچھا نہیں ہے یوں مجبوری میں سب کچھ کرنا پڑتا ہے مگر خیر خیرات کرنے کے لیے قرض نکالنا تو آج کسی طرح بھی زیبا نہیں۔ کیوں کہ ادائیگی کا معاملہ بہت ہی پریشان کن بن جاتا ہے۔ پھر ایسا مقروض آدمی دین اور دنیا ہر لحاظ سے گر جاتا ہے۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو قرض سے بچائے۔ اور مسلمان قرض داروں کا غیب سے قرض ادا کرائے۔ آمین