‌صحيح البخاري - حدیث 2388

كِتَابُ فِي الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ بَابُ أَدَاءِ الدَّيْنِ صحيح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا أَبْصَرَ يَعْنِي أُحُدًا قَالَ مَا أُحِبُّ أَنَّهُ تَحَوَّلَ لِي ذَهَبًا يَمْكُثُ عِنْدِي مِنْهُ دِينَارٌ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا دِينَارًا أُرْصِدُهُ لِدَيْنٍ ثُمَّ قَالَ إِنَّ الْأَكْثَرِينَ هُمْ الْأَقَلُّونَ إِلَّا مَنْ قَالَ بِالْمَالِ هَكَذَا وَهَكَذَا وَأَشَارَ أَبُو شِهَابٍ بَيْنَ يَدَيْهِ وَعَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ وَقَلِيلٌ مَا هُمْ وَقَالَ مَكَانَكَ وَتَقَدَّمَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَسَمِعْتُ صَوْتًا فَأَرَدْتُ أَنْ آتِيَهُ ثُمَّ ذَكَرْتُ قَوْلَهُ مَكَانَكَ حَتَّى آتِيَكَ فَلَمَّا جَاءَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ الَّذِي سَمِعْتُ أَوْ قَالَ الصَّوْتُ الَّذِي سَمِعْتُ قَالَ وَهَلْ سَمِعْتَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ أَتَانِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام فَقَالَ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِكَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ قُلْتُ وَإِنْ فَعَلَ كَذَا وَكَذَا قَالَ نَعَمْ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2388

کتاب: قرض لینے، ادا کرنے ، حجر اور مفلسی منظور کرنے کے بیان میں باب : قرضوں کا ادا کرنا ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوشہاب نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے زید بن وہب نے اور ان سے ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا، آپ کی مراد احد پہاڑ ( کو دیکھنے ) سے تھی۔ تو فرمایا کہ میں یہ بھی پسند نہیں کروں گا کہ احد پہاڑ سونے کا ہو جائے تو اس میں سے میرے پاس ایک دینار کے برابر بھی تین دن سے زیادہ باقی رہے۔ سوا اس دینار کے جو میں کسی کا قرض ادا کرنے کے لیے رکھ لوں۔ پھر فرمایا، ( دنیا میں ) دیکھو جو زیادہ ( مال ) والے ہیں وہی محتاج ہیں۔ سوا ان کے جو اپنے مال و دولت کو یوں اور یوں خرچ کریں۔ ابوشہاب راوی نے اپنے سامنے اور دائیں طرف اور بائیں طرف اشارہ کیا، لیکن ایسے لوگوں کی تعدا د کم ہوتی ہے۔ پھر آپ نے فرمایا یہیں ٹھہرے رہو اور آپ تھوڑی دور آگے کی طرف بڑھے۔ میں نے کچھ آواز سنی ( جیسے آپ کسی سے باتیں کر رہے ہوں ) میں نے چاہا کہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاؤں۔ لیکن آپ کا یہ فرمان یادآیا کہ ” یہیں اس وقت تک ٹھہرے رہنا جب تک میں نہ آجاؤں “ اس کے بعد جب آپ تشریف لائے تو میں نے پوچھا یا رسول اللہ ! ابھی میں نے کچھ سنا تھا۔ یا ( راوی نے یہ کہا کہ ) میں نے کوئی آواز سنی تھی۔ آپ نے فرمایا، تم نے بھی سنا ! میں نے عرض کیا کہ ہاں۔ آپ نے فرمایا کہ میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے تھے اور کہہ گئے ہیں کہ تمہاری امت کا جو شخص بھی اس حالت میں مرے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو، تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔ میں نے پوچھا کہ اگرچہ وہ اس طرح ( کے گناہ ) کرتا رہا ہو۔ تو آپ نے کہا کہ ہاں۔