‌صحيح البخاري - حدیث 2386

كِتَابُ فِي الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ بَابُ مَنِ اشْتَرَى بِالدَّيْنِ وَلَيْسَ عِنْدَهُ ثَمَنُهُ، أَوْ لَيْسَ بِحَضْرَتِهِ صحيح حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ قَالَ تَذَاكَرْنَا عِنْدَ إِبْرَاهِيمَ الرَّهْنَ فِي السَّلَمِ فَقَالَ حَدَّثَنِي الْأَسْوَدُ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اشْتَرَى طَعَامًا مِنْ يَهُودِيٍّ إِلَى أَجَلٍ وَرَهَنَهُ دِرْعًا مِنْ حَدِيدٍ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2386

کتاب: قرض لینے، ادا کرنے ، حجر اور مفلسی منظور کرنے کے بیان میں باب : جو شخص کوئی چیز قرض خریدے اوراس کے پاس قیمت نہ ہو یا اس وقت موجود نہ ہو تو کیا حکم ہے؟ ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، ان سے عبدالواحد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ ابراہیم کی خدمت میں ہم نے بیع سلم میں رہن کا ذکر کیا، تو انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے اسود نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہما نے بیا ن کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے غلہ ایک خاص مدت ( کے قرض پر ) خریدا، اور اپنی لوہے کی زرہ اس کے پاس رہن رکھ دی۔
تشریح : معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت کوئی اپنی چیز رہن بھی رکھی جاسکتی ہے۔ لیکن آج کل الٹا معاملہ ہے کہ رہن کی چیز از قسم زیور وغیرہ پر بھی مہاجن لوگ سود لیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ زیور جلدی واپس نہ لیا جائے تو ایک نہ ایک دن سارا سود کی نذ ر ہوکر ختم ہوجاتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے جس طرح سود لینا حرام ہے ویسے ہی سود دینا بھی حرام ہے، لہٰذا ایسا گروی معاملہ ہرگز نہ کرنا چاہئیے۔ معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت کوئی اپنی چیز رہن بھی رکھی جاسکتی ہے۔ لیکن آج کل الٹا معاملہ ہے کہ رہن کی چیز از قسم زیور وغیرہ پر بھی مہاجن لوگ سود لیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ زیور جلدی واپس نہ لیا جائے تو ایک نہ ایک دن سارا سود کی نذ ر ہوکر ختم ہوجاتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے جس طرح سود لینا حرام ہے ویسے ہی سود دینا بھی حرام ہے، لہٰذا ایسا گروی معاملہ ہرگز نہ کرنا چاہئیے۔