‌صحيح البخاري - حدیث 233

كِتَابُ الوُضُوءِ بَابُ أَبْوَالِ الإِبِلِ، وَالدَّوَابِّ، وَالغَنَمِ وَمَرَابِضِهَا صحيح حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَدِمَ أُنَاسٌ مِنْ عُكْلٍ أَوْ عُرَيْنَةَ، فَاجْتَوَوْا المَدِينَةَ «فَأَمَرَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِلِقَاحٍ، وَأَنْ يَشْرَبُوا مِنْ أَبْوَالِهَا وَأَلْبَانِهَا» فَانْطَلَقُوا، فَلَمَّا صَحُّوا، قَتَلُوا رَاعِيَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاسْتَاقُوا النَّعَمَ، فَجَاءَ الخَبَرُ فِي أَوَّلِ النَّهَارِ، فَبَعَثَ فِي آثَارِهِمْ، فَلَمَّا ارْتَفَعَ النَّهَارُ جِيءَ بِهِمْ، «فَأَمَرَ فَقَطَعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ، وَسُمِرَتْ أَعْيُنُهُمْ، وَأُلْقُوا فِي الحَرَّةِ، يَسْتَسْقُونَ فَلاَ يُسْقَوْنَ». قَالَ أَبُو قِلاَبَةَ: «فَهَؤُلاَءِ سَرَقُوا وَقَتَلُوا، وَكَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ، وَحَارَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 233

کتاب: وضو کے بیان میں باب: اونٹ بکری کے رہنے کی جگہ کے بارے میں ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انھوں نے حماد بن زید سے، وہ ایوب سے، وہ ابوقلابہ سے، وہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ کچھ لوگ عکل یا عرینہ ( قبیلوں ) کے مدینہ میں آئے اور بیمار ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں لقاح میں جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ وہاں اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پئیں۔ چنانچہ وہ لقاح چلے گئے اور جب اچھے ہو گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر کے وہ جانوروں کو ہانک کر لے گئے۔ علی الصبح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ( اس واقعہ کی ) خبر آئی۔ تو آپ نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے۔ دن چڑھے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پکڑ کر لائے گئے۔ آپ کے حکم کے مطابق ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے گئے اور آنکھوں میں گرم سلاخیں پھیر دی گئیں اور ( مدینہ کی ) پتھریلی زمین میں ڈال دئیے گئے۔ ( پیاس کی شدت سے ) وہ پانی مانگتے تھے مگر انھیں پانی نہیں دیا جاتا تھا۔ ابوقلابہ نے ( ان کے جرم کی سنگینی ظاہر کرتے ہوئے ) کہا کہ ان لوگوں نے چوری کی اور چرواہوں کو قتل کیا اور ( آخر ) ایمان سے پھر گئے اور اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی۔
تشریح : یہ آٹھ آدمی تھے چارقبیلہ عرینہ کے اور تین قبیلہ عکل کے اور ایک کسی اور قبیلے کا۔ ان کو مدینہ سے چھ میل دور ذوالمجدا نامی مقام پر بھیجا گیا۔جہاں بیت المال کی اونٹنیاں چرتی تھیں۔ ان لوگوں نے تندرست ہونے پر ایسی غداری کی کہ چرواہوںکو قتل کیا اور ان کی آنکھیں پھوڑدیں اور اونٹوں کو لے بھاگے۔ اس لیے قصاص میں ان کو ایسی ہی سخت سزا دی گئی۔ حکمت اور دانائی اور قیام امن کے لیے ایسا ضروری تھا۔ اس وقت کے لحاظ سے یہ کوئی وحشیانہ سزا نہ تھی جو غیرمسلم اس پر اعتراض کرتے ہیں۔ ذرا ان کو خود اپنی تاریخ ہائے قدیم کا مطالعہ کرنا چاہئیے کہ اس زمانے میں ان کے دشمنوں کے لیے ان کے ہاں کیسی کیسی سنگین سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ اسلام نے اصول قصاص پر ہدایات دے کر ایک پائیدار امن قائم کیا ہے۔ جس کا بہترین نمونہ آج بھی حکومت عربیہ سعودیہ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ والحمدللّٰہ علی ذلک ایدہم اللّٰہ بنصرہ العزیز آمین۔ یہ آٹھ آدمی تھے چارقبیلہ عرینہ کے اور تین قبیلہ عکل کے اور ایک کسی اور قبیلے کا۔ ان کو مدینہ سے چھ میل دور ذوالمجدا نامی مقام پر بھیجا گیا۔جہاں بیت المال کی اونٹنیاں چرتی تھیں۔ ان لوگوں نے تندرست ہونے پر ایسی غداری کی کہ چرواہوںکو قتل کیا اور ان کی آنکھیں پھوڑدیں اور اونٹوں کو لے بھاگے۔ اس لیے قصاص میں ان کو ایسی ہی سخت سزا دی گئی۔ حکمت اور دانائی اور قیام امن کے لیے ایسا ضروری تھا۔ اس وقت کے لحاظ سے یہ کوئی وحشیانہ سزا نہ تھی جو غیرمسلم اس پر اعتراض کرتے ہیں۔ ذرا ان کو خود اپنی تاریخ ہائے قدیم کا مطالعہ کرنا چاہئیے کہ اس زمانے میں ان کے دشمنوں کے لیے ان کے ہاں کیسی کیسی سنگین سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ اسلام نے اصول قصاص پر ہدایات دے کر ایک پائیدار امن قائم کیا ہے۔ جس کا بہترین نمونہ آج بھی حکومت عربیہ سعودیہ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ والحمدللّٰہ علی ذلک ایدہم اللّٰہ بنصرہ العزیز آمین۔