كِتَابُ المُزَارَعَةِ بَابُ المُزَارَعَةِ بِالشَّطْرِ وَنَحْوِهِ صحيح حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَلَ خَيْبَرَ بِشَطْرِ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا مِنْ ثَمَرٍ أَوْ زَرْعٍ فَكَانَ يُعْطِي أَزْوَاجَهُ مِائَةَ وَسْقٍ ثَمَانُونَ وَسْقَ تَمْرٍ وَعِشْرُونَ وَسْقَ شَعِيرٍ فَقَسَمَ عُمَرُ خَيْبَرَ فَخَيَّرَ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُقْطِعَ لَهُنَّ مِنْ الْمَاءِ وَالْأَرْضِ أَوْ يُمْضِيَ لَهُنَّ فَمِنْهُنَّ مَنْ اخْتَارَ الْأَرْضَ وَمِنْهُنَّ مَنْ اخْتَارَ الْوَسْقَ وَكَانَتْ عَائِشَةُ اخْتَارَتْ الْأَرْضَ
کتاب: کھیتی باڑی اور بٹائی کا بیان
باب : آدھی یا کم و زیادہ پیداوار پر بٹائی کرنا
ہم سے ا براہیم بن منذر نے بیان کیا، کہا ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ عمری نے، ان سے نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( خیبر کے یہودیوں سے ) وہاں ( کی زمین میں ) پھل کھیتی اور جوبھی پیداوار ہو اس کے آدھے حصے پر معاملہ کیا تھا۔ آپ اس میں سے اپنی بیویوں کو سو وسق دیتے تھے۔ جس میں اسی وسق کھجور ہوتی اور بیس وسق جو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ( اپنے عہد خلافت میں ) جب خیبر کی زمین تقسیم کی تو ازواج مطہرات کو آپ نے اس کا اختیار دیا کہ ( اگر وہ چاہیں تو ) انہیں بھی وہاں کا پانی اور قطعہ زمین دے دیا جائے۔ یا وہی پہلی صورت باقی رکھی جائے۔ چنانچہ بعض نے زمین لینا پسند کیا۔ اور بعض نے ( پیداوار سے ) وسق لینا پسند کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے زمین ہی لینا پسند کیا تھا۔
تشریح :
ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والوں سے نصف پیداوار پر معاملہ کیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کے لیے فی نفر سو وسق غلہ مقرر فرمایا تھا۔ یہی طریقہ عہد صدیقی میں رہا۔ مگر عہد فاروقی میں یہودیوں سے معاملہ ختم کر دیا گیا۔ اس لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ازواج مطہرات کو غلہ یا زمین ہر دو کا اختیار دے دیا تھا۔ ایک وسق چار من اور بارہ سیر وزن کے برابر ہوتا ہے۔
بذیل حدیث ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم عامل خیبر بشطر ما یخرج منہا حافظ صاحب فرماتے ہیں :
ہذا الحدیث ہو عمدۃ من اجاز المزارعۃ و المخابرۃ لتقریر النبی صلی اللہ علیہ وسلم کذلک و استمرارہ علی عہد ابی بکر الی ان اجلاہم عمر کما سیاتی بعد ابواب استدل بہ علی جواز المساقات فی النخل و الکرم و جمیع الشجر الذی من شانہ ان یثمر بجزءمعلوم یجعل للعامل من الثمرۃ و بہ قال الجمہور ( فتح الباری ) یعنی یہ حدیث عمدہ دلیل ہے اس کی جو مزارعت اور مخابرۃ کو جائز قرار دیتا ہے۔ اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طریق کار کو قائم رکھا اورحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بھی یہی دستور رہا۔ یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا۔ آپ نے بعد میں ان یہود کو خیبر سے جلا وطن کر دیا تھا۔ کھیتی کے علاوہ جملہ پھل دار درختوں میں بھی یہ معاملہ جائز قرار دیا گیا کہ کارکنان کے لیے مالک پھلوں کا کچھ حصہ مقرر کردیں۔ جمہور کا یہی فتوی ہے۔
اس میں کھیت اور باغ کے مالک کا بھی فائدہ ہے کہ وہ بغیر محنت کے پیداوار کا ایک حصہ حاصل کرلیتا ہے اور محنت کرنے والے کے لیے بھی سہولت ہے کہ وہ زمینات سے اپنی محنت کے نتیجہ میں پیداوار لے لیتا ہے۔ محنت کش طبقہ کے لیے یہ وہ اعتدال کا راستہ ہے جو اسلام نے پیش کرکے ایسے مسائل کو حل کر دیا ہے، توڑ پھوڑ، فتنہ فساد، تخریب کاری کا وہ راستہ جو آج کل بعض جماعتوں کی طرف سے محنت کش لوگوں کو ابھارنے کے لیے دنیا میں جاری ہے، یہ راستہ شرعاً بالکل غلط اور قطعاً ناجائز ہے۔
ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والوں سے نصف پیداوار پر معاملہ کیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کے لیے فی نفر سو وسق غلہ مقرر فرمایا تھا۔ یہی طریقہ عہد صدیقی میں رہا۔ مگر عہد فاروقی میں یہودیوں سے معاملہ ختم کر دیا گیا۔ اس لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ازواج مطہرات کو غلہ یا زمین ہر دو کا اختیار دے دیا تھا۔ ایک وسق چار من اور بارہ سیر وزن کے برابر ہوتا ہے۔
بذیل حدیث ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم عامل خیبر بشطر ما یخرج منہا حافظ صاحب فرماتے ہیں :
ہذا الحدیث ہو عمدۃ من اجاز المزارعۃ و المخابرۃ لتقریر النبی صلی اللہ علیہ وسلم کذلک و استمرارہ علی عہد ابی بکر الی ان اجلاہم عمر کما سیاتی بعد ابواب استدل بہ علی جواز المساقات فی النخل و الکرم و جمیع الشجر الذی من شانہ ان یثمر بجزءمعلوم یجعل للعامل من الثمرۃ و بہ قال الجمہور ( فتح الباری ) یعنی یہ حدیث عمدہ دلیل ہے اس کی جو مزارعت اور مخابرۃ کو جائز قرار دیتا ہے۔ اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طریق کار کو قائم رکھا اورحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بھی یہی دستور رہا۔ یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا۔ آپ نے بعد میں ان یہود کو خیبر سے جلا وطن کر دیا تھا۔ کھیتی کے علاوہ جملہ پھل دار درختوں میں بھی یہ معاملہ جائز قرار دیا گیا کہ کارکنان کے لیے مالک پھلوں کا کچھ حصہ مقرر کردیں۔ جمہور کا یہی فتوی ہے۔
اس میں کھیت اور باغ کے مالک کا بھی فائدہ ہے کہ وہ بغیر محنت کے پیداوار کا ایک حصہ حاصل کرلیتا ہے اور محنت کرنے والے کے لیے بھی سہولت ہے کہ وہ زمینات سے اپنی محنت کے نتیجہ میں پیداوار لے لیتا ہے۔ محنت کش طبقہ کے لیے یہ وہ اعتدال کا راستہ ہے جو اسلام نے پیش کرکے ایسے مسائل کو حل کر دیا ہے، توڑ پھوڑ، فتنہ فساد، تخریب کاری کا وہ راستہ جو آج کل بعض جماعتوں کی طرف سے محنت کش لوگوں کو ابھارنے کے لیے دنیا میں جاری ہے، یہ راستہ شرعاً بالکل غلط اور قطعاً ناجائز ہے۔