‌صحيح البخاري - حدیث 2324

كِتَابُ المُزَارَعَةِ بَابُ اسْتِعْمَالِ البَقَرِ لِلْحِرَاثَةِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بَيْنَمَا رَجُلٌ رَاكِبٌ عَلَى بَقَرَةٍ الْتَفَتَتْ إِلَيْهِ فَقَالَتْ لَمْ أُخْلَقْ لِهَذَا خُلِقْتُ لِلْحِرَاثَةِ قَالَ آمَنْتُ بِهِ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَأَخَذَ الذِّئْبُ شَاةً فَتَبِعَهَا الرَّاعِي فَقَالَ لَهُ الذِّئْبُ مَنْ لَهَا يَوْمَ السَّبُعِ يَوْمَ لَا رَاعِيَ لَهَا غَيْرِي قَالَ آمَنْتُ بِهِ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ قَالَ أَبُو سَلَمَةَ وَمَا هُمَا يَوْمَئِذٍ فِي الْقَوْمِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2324

کتاب: کھیتی باڑی اور بٹائی کا بیان باب : کھیتی کے لیے بیل سے کام لینا ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سعد بن ابراہیم نے انہوں نے ابوسلمہ سے سنا اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( بنی اسرائیل میں سے ) ایک شخص بیل پر سوار ہو کر جارہا تھا کہ اس بیل نے اس کی طرف دیکھا اور اس سوار سے کہا کہ میں اس کے لیے نہیں پیدا ہوا ہوں۔ میری پیدائش تو کھیت جوتنے کے لیے ہوئی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں اس پر ایمان لایا اور ابوبکر و عمر بھی ایمان لائے۔ اور ایک دفعہ ایک بھیڑئیے نے ایک بکری پکڑ لی تھی تو گڈریے نے اس کا پیچھا کیا۔ بھیڑیا بولا ! آج تو تو اسے بچاتا ہے۔ جس دن ( مدینہ اجاڑ ہوگا ) درندے ہی درندے رہ جائیں گے۔ اس دن میرے سوا کون بکریوں کا چرانے والا ہوگا۔ آپ نے فرمایا کہ میں اس پر ایمان لایا اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی۔ ابوسلمہ نے کہا کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اس مجلس میں موجود نہیں تھے۔
تشریح : حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب کے تحت اس حدیث کو درج فرمایا۔ جس میں ایک اسرائیلی مرد کا اور ایک بیل کا مکالمہ مذکور ہوا ہے۔ وہ اسرائیلی بیل کو سواری کے کام میں استعمال کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بیل کو انسانی زبان میں بولنے کی طاقت دی اور وہ کہنے لگا کہ میں کھیتی کے لیے پیدا ہوا ہوں، سواری کے لیے نہیں ہوا۔ چونکہ یہ بولنے کا واقعہ خرق عادت سے تعلق رکھتا ہے اور اللہ پاک اس پر قادر ہے کہ وہ بیل جیسے جانور کو انسانی زبان میں گفتگو کی طاقت بخش دے۔ اس لیے اللہ کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اظہار ایمان فرمایا۔ بلکہ ساتھ ہی حضرات شیخین کو بھی شامل فرما لیا کہ آپ کو ان پر اعتماد کامل تھا حالانکہ وہ ہر دو وہاں اس وقت موجود بھی نہ تھے۔ و انما قال ذلک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثقۃ بہما لعلمہ بصدق ایمانہما و قوۃ یقینہما و کمال معرفتہما بقدرۃ اللہ تعالیٰ ( عینی ) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اس لیے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان ہر دوپر اعتماد تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ایمان اور یقین کی صداقت اور قوت سے واقف تھے اور جانتے تھے کہ ان کو بھی قدرت الٰہی کی معرفت بدرجہ کمال حاصل ہے اس لیے آپ نے اس ایمان میں ان کو بھی شریک فرما لیا۔ رضی اللہ عنہما وراضاہما۔ حدیث کا دوسرا حصہ بھیڑیے سے متعلق ہے جو ایک بکری کو پکڑ کر لے جارہا تھا کہ چرواہے نے اس کا پیچھا کیا اور اللہ نے بھیڑیے کو انسانی زبان میں بولنے کی طاقت عطا فرمائی اور اس نے چرواہے سے کہا کہ آج تو تم نے اس بکری کو مجھ سے چھڑا لیا۔ مگر اس دن ان بکریوں کو ہم سے کون چھڑائے گا جس دن مدینہ اجاڑ ہو جائے گا۔ اور بکریوں کا چرواہا ہمارے سوا کوئی نہ ہوگا۔ قال القرطبی کانہ یشیر الی حدیث ابی ہریرۃ المرفوع یترکون المدینۃ علی خبر ما کان لا یغشاہا الا العوافی یرید السباع و الطیر قرطبی نے کہا کہ اس میں اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جو مرفوعاً حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ لوگ مدینہ کو خیریت کے ساتھ چھوڑ جائیں گے۔ واپسی پر دیکھیں گے کہ وہ سارا شہر درندوں، چرندوں اور پرندوں کا مسکن بنا ہوا ہے۔ اس بھیڑیے کی آواز پر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اظہا رایمان فرماتے ہوئے حضرات صاحبین کو بھی شریک فرمایا۔ خلاصہ یہ کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جو باب منعقد فرمایا تھا وہ حدیث بیل کے مکالمہ والے حصہ سے ثابت ہوتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان جب سے عالم شعور میں آکر زراعت کی طرف متوجہ ہوا تو زمین کو قابل کاشت بنانے کے لیے اس نے زیادہ تر بیل ہی کا استعمال کیا ہے۔ اگرچہ گدھے، گھوڑے، اونٹ، بھینسے بھی بعض بعض ملکوں میں ہلوں میں جوتے جاتے ہیں۔ مگر عموم کے لحاظ سے بیل ہی کو قدرت نے اس خدمت جلیلہ کا اہل بنایا ہے۔ آج اس مشینی دور میں بھی بیل کے بغیر چارہ نہیں جیسا کہ مشاہدہ ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب کے تحت اس حدیث کو درج فرمایا۔ جس میں ایک اسرائیلی مرد کا اور ایک بیل کا مکالمہ مذکور ہوا ہے۔ وہ اسرائیلی بیل کو سواری کے کام میں استعمال کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بیل کو انسانی زبان میں بولنے کی طاقت دی اور وہ کہنے لگا کہ میں کھیتی کے لیے پیدا ہوا ہوں، سواری کے لیے نہیں ہوا۔ چونکہ یہ بولنے کا واقعہ خرق عادت سے تعلق رکھتا ہے اور اللہ پاک اس پر قادر ہے کہ وہ بیل جیسے جانور کو انسانی زبان میں گفتگو کی طاقت بخش دے۔ اس لیے اللہ کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اظہار ایمان فرمایا۔ بلکہ ساتھ ہی حضرات شیخین کو بھی شامل فرما لیا کہ آپ کو ان پر اعتماد کامل تھا حالانکہ وہ ہر دو وہاں اس وقت موجود بھی نہ تھے۔ و انما قال ذلک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثقۃ بہما لعلمہ بصدق ایمانہما و قوۃ یقینہما و کمال معرفتہما بقدرۃ اللہ تعالیٰ ( عینی ) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اس لیے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان ہر دوپر اعتماد تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ایمان اور یقین کی صداقت اور قوت سے واقف تھے اور جانتے تھے کہ ان کو بھی قدرت الٰہی کی معرفت بدرجہ کمال حاصل ہے اس لیے آپ نے اس ایمان میں ان کو بھی شریک فرما لیا۔ رضی اللہ عنہما وراضاہما۔ حدیث کا دوسرا حصہ بھیڑیے سے متعلق ہے جو ایک بکری کو پکڑ کر لے جارہا تھا کہ چرواہے نے اس کا پیچھا کیا اور اللہ نے بھیڑیے کو انسانی زبان میں بولنے کی طاقت عطا فرمائی اور اس نے چرواہے سے کہا کہ آج تو تم نے اس بکری کو مجھ سے چھڑا لیا۔ مگر اس دن ان بکریوں کو ہم سے کون چھڑائے گا جس دن مدینہ اجاڑ ہو جائے گا۔ اور بکریوں کا چرواہا ہمارے سوا کوئی نہ ہوگا۔ قال القرطبی کانہ یشیر الی حدیث ابی ہریرۃ المرفوع یترکون المدینۃ علی خبر ما کان لا یغشاہا الا العوافی یرید السباع و الطیر قرطبی نے کہا کہ اس میں اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جو مرفوعاً حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ لوگ مدینہ کو خیریت کے ساتھ چھوڑ جائیں گے۔ واپسی پر دیکھیں گے کہ وہ سارا شہر درندوں، چرندوں اور پرندوں کا مسکن بنا ہوا ہے۔ اس بھیڑیے کی آواز پر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اظہا رایمان فرماتے ہوئے حضرات صاحبین کو بھی شریک فرمایا۔ خلاصہ یہ کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جو باب منعقد فرمایا تھا وہ حدیث بیل کے مکالمہ والے حصہ سے ثابت ہوتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان جب سے عالم شعور میں آکر زراعت کی طرف متوجہ ہوا تو زمین کو قابل کاشت بنانے کے لیے اس نے زیادہ تر بیل ہی کا استعمال کیا ہے۔ اگرچہ گدھے، گھوڑے، اونٹ، بھینسے بھی بعض بعض ملکوں میں ہلوں میں جوتے جاتے ہیں۔ مگر عموم کے لحاظ سے بیل ہی کو قدرت نے اس خدمت جلیلہ کا اہل بنایا ہے۔ آج اس مشینی دور میں بھی بیل کے بغیر چارہ نہیں جیسا کہ مشاہدہ ہے۔