‌صحيح البخاري - حدیث 2323

كِتَابُ المُزَارَعَةِ بَابُ اقْتِنَاءِ الكَلْبِ لِلْحَرْثِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ أَنَّ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ سُفْيَانَ بْنَ أَبِي زُهَيْرٍ رَجُلًا مِنْ أَزْدِ شَنُوءَةَ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ اقْتَنَى كَلْبًا لَا يُغْنِي عَنْهُ زَرْعًا وَلَا ضَرْعًا نَقَصَ كُلَّ يَوْمٍ مِنْ عَمَلِهِ قِيرَاطٌ قُلْتُ أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِي وَرَبِّ هَذَا الْمَسْجِدِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2323

کتاب: کھیتی باڑی اور بٹائی کا بیان باب : کھیتی کے لیے کتا پالنا ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں یزید بن خصیفہ نے، ان سے سائب بن یزید نے بیان کیا کہ سفیان بن زہیر نے ازدشنوہ قبیلے کے ایک بزرگ سے سنا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ جس نے کتاپالا، جو نہ کھیتی کے لیے ہے اور نہ مویشی کے لیے، تو اس کی نیکیوں سے روزانہ ایک قیراط کم ہو جاتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں ہاں ! اس مسجد کے رب کی قسم ! ( میں نے ضرور آپ سے یہ سنا ہے )
تشریح : قیراط یہاں عنداللہ ایک مقدار معلوم ہے۔ مراد یہ کہ بے حد نیکیاں کم ہوجاتی ہیں جس کی وجوہ بہت ہیں۔ ایک تو یہ کہ ایسے گھر میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے، دوسرے یہ کہ ایسا کتا گزرنے والوں اور آنے جانے والے مہمان پر حملہ کے لیے دوڑتا ہے جس کا گناہ کتا پالنے والے پر ہوتا ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ گھر کے برتنوں کو منہ ڈال ڈال کر ناپاک کرتا رہتا ہے۔ چوتھے یہ کہ وہ نجاستیں کھا کھا کر گھر پر آتا ہے اور بدبو اور دیگر امراض اپنے ساتھ لاتا ہے اور بھی بہت سے وجوہ ہیں۔ اس لیے شریعت اسلامی نے گھر میں بے کار کتا رکھنے کی سختی کے ساتھ ممانعت کی ہے۔ شکاری کتے اور تربیت دیئے ہوئے دیگر محافظ کتے اس سے الگ ہیں۔ قیراط یہاں عنداللہ ایک مقدار معلوم ہے۔ مراد یہ کہ بے حد نیکیاں کم ہوجاتی ہیں جس کی وجوہ بہت ہیں۔ ایک تو یہ کہ ایسے گھر میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے، دوسرے یہ کہ ایسا کتا گزرنے والوں اور آنے جانے والے مہمان پر حملہ کے لیے دوڑتا ہے جس کا گناہ کتا پالنے والے پر ہوتا ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ گھر کے برتنوں کو منہ ڈال ڈال کر ناپاک کرتا رہتا ہے۔ چوتھے یہ کہ وہ نجاستیں کھا کھا کر گھر پر آتا ہے اور بدبو اور دیگر امراض اپنے ساتھ لاتا ہے اور بھی بہت سے وجوہ ہیں۔ اس لیے شریعت اسلامی نے گھر میں بے کار کتا رکھنے کی سختی کے ساتھ ممانعت کی ہے۔ شکاری کتے اور تربیت دیئے ہوئے دیگر محافظ کتے اس سے الگ ہیں۔