‌صحيح البخاري - حدیث 2322

كِتَابُ المُزَارَعَةِ بَابُ اقْتِنَاءِ الكَلْبِ لِلْحَرْثِ صحيح حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَمْسَكَ كَلْبًا فَإِنَّهُ يَنْقُصُ كُلَّ يَوْمٍ مِنْ عَمَلِهِ قِيرَاطٌ إِلَّا كَلْبَ حَرْثٍ أَوْ مَاشِيَةٍ قَالَ ابْنُ سِيرِينَ وَأَبُو صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا كَلْبَ غَنَمٍ أَوْ حَرْثٍ أَوْ صَيْدٍ وَقَالَ أَبُو حَازِمٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلْبَ صَيْدٍ أَوْ مَاشِيَةٍ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2322

کتاب: کھیتی باڑی اور بٹائی کا بیان باب : کھیتی کے لیے کتا پالنا ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس شخص نے کوئی کتا رکھا، اس نے روزانہ اپنے عمل سے ایک قیراط کی کمی کرلی۔ البتہ کھیتی یا مویشی ( کی حفاظت کے لیے ) کتے اس سے الگ ہیں۔ ابن سیرین اور ابوصالح نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بیان کیا بحوالہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہ بکری کے ریوڑ، کھیتی اور شکار کے کتے الگ ہیں۔ ابوحازم نے کہا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ شکاری اور مویشی کے کتے ( الگ ہیں )۔
تشریح : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کھیتی کی حفاظت کے لیے بھی کتا پالا جاسکتا ہے جس طرح سے شکار کے لیے کتا پالنا جائز ہے۔ محض شوقیہ کتا پالنا منع ہے۔ اس لیے کہ اس سے بہت سے خطرات ہوتے ہیں۔ بڑا خطرہ یہ کہ ایسے کتے موقع پاتے ہی برتنوں میں منہ ڈال کر ان کو گندا کرتے رہتے ہیں۔ اور یہ آنے جانے والوں کو ستاتے بھی ہیں۔ ان کے کاٹنے کا ڈر ہوتا ہے۔ اسی لیے ایسے گھر میں رحمت کے فرشتے نہیں داخل ہوتے جس میں یہ موذی جانور رکھا گیا ہو۔ ایسے مسلمان کی نیکیوں میں سے ایک قیراط نیکیاں کم ہوتی رہتی ہیں جو بے منفعت کتے کو پالتا ہو۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں : قیل سبب النقصان امتناع الملئکۃ من دخول بیتہ او ما یلحق المارین من الاذی او لان بعضہا شیاطین او عقوبۃ لمخالفۃ النہی او لو لو عنہا فی الاوانی عند غفلۃ صاحبہا فربما یتنجس الطاہر منہا فاذا استعمل فی العبادۃ لم یقع موقع الطاہر الخ۔ و فی الحدیث الحث علی تکثیر الاعمال الصالحۃ و التحذیر من العمل بما ینقصہا و التنبیہ علی اسباب الزیادۃ فیہا و النقص منہا لتجنتب او ترتکب و بیان لطف اللہ تعالیٰ بخلقہ فی اباحۃ مالہم بہ نفع و تبلیغ نبیہم صلی اللہ علیہ وسلم امور معاشہم و معادہم و فیہ ترجیح المصلحۃ الراجحۃ علی المفسدۃ لوقوع استثناءما ینتفع بہ مما حرم اتخاذہ ( فتح الباری ) یعنی نیکیوں میں سے ایک قیراط کم ہونے کا سبب ایک تو یہ ہے کہ رحمت کے فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے، یا یہ کہ اس کتے کی وجہ سے آنے جانے والوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ یا اس لیے کہ بھی کہ بعض کتے شیطان ہوتے ہیں یا اس لیے کہ باوجود نہی کے کتا رکھا گیا، اس سے نیکی کم ہوتی ہے یا اس لیے کہ وہ برتنوں میں منہ ڈالتے رہتے ہیں۔ جہاں گھر والے سے ذار غفلت ہوئی اور کتے نے فوراً پاک پانی کو ناپاک کر ڈالا۔ اب اگر عبادت کے لیے وہ استعمال کیا گیا تو اس سے پاکی حاصل نہ ہوگی۔ الغرض یہ جملہ وجوہ ہیں جن کی وجہ سے محض شوقیہ کتا پالنے والوں کی نیکیاں روزانہ ایک ایک قیراط کم ہوتی رہتی ہیں۔ مگر تہذیب مغرب کا برا ہو آج کل نئی تہذب میں کتا پالنا بھی ایک فیشن بن گیا ہے۔ امیر گھرانوں میں محض شوقیہ پلنے والے کتوں کی اس قدر خدمت کی جاتی ہے کہ ان کے نہلانے دھلانے کے لیے خاص ملازم ہوتے ہیں۔ ان کی خوراک کا خاص اہتمام ہوتا ہے۔ استغفر اللہ ! مسلمانوں کو ایسے فضول بے ہودہ فضول خرچی کے کاموں سے بہرحال پرہیز لازم ہے۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ حدیث ہذا بہت سے فوائد پر مشتمل ہے جن میں سے اعمال صالحہ کی کثرت پر رغبت دلانا بھی ہے اور ایسے اعمال بد سے ڈرانا بھی جن سے نیکی برباد ہو اورگناہ لازم آئے۔ حدیث ہذا میں ہر دو امور کے لیے تنبیہ ہے کہ نیکیاں بکثرت کی جائیں اور برائیوں سے بکثرت پرہیز کیا جائے۔ اور یہ بھی کہ اللہ کی اپنی مخلوق پر مہربانی ہے کہ جو چیز اس کے لیے نفع بخش ہے وہ مباح قرار دی ہے اور اس حدیث میں تبلیغ نبوی بابت امور معاش و معاد بھی مذکو رہے۔ اوراس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہے کہ بعض چیزیں حرام ہوتی ہیں جیسا کہ کتا پالنا، مگر ان کے نفع بخش ہونے کی صورت میں ان کو مصلحت کی بنا پر مستثنیٰ بھی کر دیا جاتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کھیتی کی حفاظت کے لیے بھی کتا پالا جاسکتا ہے جس طرح سے شکار کے لیے کتا پالنا جائز ہے۔ محض شوقیہ کتا پالنا منع ہے۔ اس لیے کہ اس سے بہت سے خطرات ہوتے ہیں۔ بڑا خطرہ یہ کہ ایسے کتے موقع پاتے ہی برتنوں میں منہ ڈال کر ان کو گندا کرتے رہتے ہیں۔ اور یہ آنے جانے والوں کو ستاتے بھی ہیں۔ ان کے کاٹنے کا ڈر ہوتا ہے۔ اسی لیے ایسے گھر میں رحمت کے فرشتے نہیں داخل ہوتے جس میں یہ موذی جانور رکھا گیا ہو۔ ایسے مسلمان کی نیکیوں میں سے ایک قیراط نیکیاں کم ہوتی رہتی ہیں جو بے منفعت کتے کو پالتا ہو۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں : قیل سبب النقصان امتناع الملئکۃ من دخول بیتہ او ما یلحق المارین من الاذی او لان بعضہا شیاطین او عقوبۃ لمخالفۃ النہی او لو لو عنہا فی الاوانی عند غفلۃ صاحبہا فربما یتنجس الطاہر منہا فاذا استعمل فی العبادۃ لم یقع موقع الطاہر الخ۔ و فی الحدیث الحث علی تکثیر الاعمال الصالحۃ و التحذیر من العمل بما ینقصہا و التنبیہ علی اسباب الزیادۃ فیہا و النقص منہا لتجنتب او ترتکب و بیان لطف اللہ تعالیٰ بخلقہ فی اباحۃ مالہم بہ نفع و تبلیغ نبیہم صلی اللہ علیہ وسلم امور معاشہم و معادہم و فیہ ترجیح المصلحۃ الراجحۃ علی المفسدۃ لوقوع استثناءما ینتفع بہ مما حرم اتخاذہ ( فتح الباری ) یعنی نیکیوں میں سے ایک قیراط کم ہونے کا سبب ایک تو یہ ہے کہ رحمت کے فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے، یا یہ کہ اس کتے کی وجہ سے آنے جانے والوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ یا اس لیے کہ بھی کہ بعض کتے شیطان ہوتے ہیں یا اس لیے کہ باوجود نہی کے کتا رکھا گیا، اس سے نیکی کم ہوتی ہے یا اس لیے کہ وہ برتنوں میں منہ ڈالتے رہتے ہیں۔ جہاں گھر والے سے ذار غفلت ہوئی اور کتے نے فوراً پاک پانی کو ناپاک کر ڈالا۔ اب اگر عبادت کے لیے وہ استعمال کیا گیا تو اس سے پاکی حاصل نہ ہوگی۔ الغرض یہ جملہ وجوہ ہیں جن کی وجہ سے محض شوقیہ کتا پالنے والوں کی نیکیاں روزانہ ایک ایک قیراط کم ہوتی رہتی ہیں۔ مگر تہذیب مغرب کا برا ہو آج کل نئی تہذب میں کتا پالنا بھی ایک فیشن بن گیا ہے۔ امیر گھرانوں میں محض شوقیہ پلنے والے کتوں کی اس قدر خدمت کی جاتی ہے کہ ان کے نہلانے دھلانے کے لیے خاص ملازم ہوتے ہیں۔ ان کی خوراک کا خاص اہتمام ہوتا ہے۔ استغفر اللہ ! مسلمانوں کو ایسے فضول بے ہودہ فضول خرچی کے کاموں سے بہرحال پرہیز لازم ہے۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ حدیث ہذا بہت سے فوائد پر مشتمل ہے جن میں سے اعمال صالحہ کی کثرت پر رغبت دلانا بھی ہے اور ایسے اعمال بد سے ڈرانا بھی جن سے نیکی برباد ہو اورگناہ لازم آئے۔ حدیث ہذا میں ہر دو امور کے لیے تنبیہ ہے کہ نیکیاں بکثرت کی جائیں اور برائیوں سے بکثرت پرہیز کیا جائے۔ اور یہ بھی کہ اللہ کی اپنی مخلوق پر مہربانی ہے کہ جو چیز اس کے لیے نفع بخش ہے وہ مباح قرار دی ہے اور اس حدیث میں تبلیغ نبوی بابت امور معاش و معاد بھی مذکو رہے۔ اوراس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہے کہ بعض چیزیں حرام ہوتی ہیں جیسا کہ کتا پالنا، مگر ان کے نفع بخش ہونے کی صورت میں ان کو مصلحت کی بنا پر مستثنیٰ بھی کر دیا جاتا ہے۔