كِتَابُ المُزَارَعَةِ بَابُ مَا يُحَذَّرُ مِنْ عَوَاقِبِ الِاشْتِغَالِ بِآلَةِ الزَّرْعِ، أَوْ مُجَاوَزَةِ الحَدِّ الَّذِي أُمِرَ بِهِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَالِمٍ الْحِمْصِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ الْأَلْهَانِيُّ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ قَالَ وَرَأَى سِكَّةً وَشَيْئًا مِنْ آلَةِ الْحَرْثِ فَقَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يَدْخُلُ هَذَا بَيْتَ قَوْمٍ إِلَّا أَدْخَلَهُ اللَّهُ الذُّلَّ
کتاب: کھیتی باڑی اور بٹائی کا بیان
باب : کھیتی کے سامان میں بہت زیادہ مصروف رہنا یا حد سے زیادہ اس میں لگ جانا، اس کا انجام برا ہے
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن سالم حمصی نے بیان کیا، ان سے محمد بن زیاد الہانی نے بیان کیا، ان سے ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا آپ کی نظر پھالی اور کھیتی کے بعض دوسرے آلات پر پڑی۔ آپ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جس قوم کے گھر میں یہ چیز داخل ہوتی ہے تو اپنے ساتھ ذلت بھی لاتی ہے۔
تشریح :
حضرت امام بخاری نے منعقدہ باب میں احادیث آمدہ در مدح زراعت و در ذم زراعت میں تطبیق پیش فرمائی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ کہ کھیتی باڑی اگر حد اعتدال میں کی جائے کہ اس کی وجہ سے فرائض اسلام کی ادائیگی میں کوئی تساہل نہ ہو تو وہ کھیتی قابل تعریف ہے۔ جس کی فضیلت حدیث واردہ میں نقل ہوئی ہے۔ اور اگر کھیتی باڑی میں اس قدر مشغولیت ہو جائے کہ ایک مسلمان اپنے دینی فرائض سے بھی غافل ہو جائے تو پھر وہ کھیتی قابل تعریف نہیں رہتی۔
ہدا من اخبارہ صلی اللہ علیہ وسلم بالمغیبات لان المشاہد الان ان اکثر الظلم انما ہو علی اہل الحرث و قد اشار البخاری بالترجمۃ الی الجمع بین حدیث ابی امامۃ و الحدیث الماضی فی فضل الزرع و الغرس و ذلک باحد الامرین اما ان یحمل ما ورد من الذم علی عاقبۃ ذلک و محلہ اذا اشتغل بہ فضیع بسببہ ما امر بحفظہ و اما ان یحمل علی ما اذا لم یضع الا انہ جاوز الحد فیہ و الذی یظہر ان کلام ابی امامۃ محمول علی من یتعاطی ذلک بنفسہ اما من لہ عمال یعملون لہ و ادخل دارہ الالۃ المذکورۃ لتحفظ لہم فلیس مراد لو یمکن الحمل علی عمومہ فان الذل شامل لکل من ادخل نفسہ ما یستلزم مطالبۃ اخر لہ و لا سیما اذا کان المطالب من الولاۃ و عن الداودی ہذا لمن یقرب من العدو فانہ اذا اشتغل بالحرث لا یشتغل بالفروسیۃ فیتاسد علیہ العدو فحقہم ان یشتغلوا بالفروسیۃ و علی غیرہم امدادہم بما یحتاجون الیہ ( فتح الباری )
یعنی یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان خبروں میں سے ہے جن کو مشاہدہ نے بالکل صحیح ثابت کر دیا۔ کیوں کہ اکثر مظالم کا شکار کاشتکار ہی ہوتے چلے آرہے ہیں اور حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب سے حدیث ابی امامہ اور حدیث سابقہ بابت فضیلت زراعت و باغبانی میں تطبیق پر اشارہ فرمایا ہے اور یہ دو امور میں سے ایک ہے۔ اول تو یہ کہ جو مذمت وارد ہے اسے اس کے انجام پر محمول کیا جائے، اگر انجام میں اس میں اس قدر مشغولیت ہو گئی کہ اسلامی فرائض سے بھی غافل ہونے لگا۔ دوسرے یہ بھی کہ فرائض کو تو ضائع نہیں کیا مگر حد اعتدال سے آگے تجاوز کرکے اس میں مشغول ہو گیا تو یہ پیشہ اچھا نہیں۔ اور ظاہر ہے کہ ابوامامہ والی حدیث ایسے ہی شخص پر وارد ہوگی جو خود اپنے طور پر اس میں مشغول ہو اور اس میں حد اعتدال سے تجاوز کرجائے۔ اور جس کے نوکر چاکر کام انجام دیتے ہوں اور حفاظت کے لیے آلات زراعت اس کے گھر میں رکھے جائیں تو ذم سے وہ شخص مراد نہ ہوگا۔ حدیث ذم عموم پر بھی محمول کی جاسکتی ہے کہ کاشتکاروں کو بسااوقات ادائے مالیہ کے لیے حکام کے سامنے ذلیل ہونا پڑتا ہے اور دواؤد نے کہا کہ یہ ذم اس کے لیے ہے جو دشمن سے قریب ہو کہ وہ کھیتی باڑی میں مشغول رہ کر دشمن سے بے خوف ہو جائے گا اور ایک دشمن ان کے اوپر چڑھ بیٹھے گا۔ پس ان کے لیے ضروری ہے کہ سپاہ گری میں مشغول رہیں اور حاجت کی اشیاءسے دوسرے لوگ ان کی مدد کریں۔
زراعت باغبانی ایک بہترین فن ہے۔ بہت سے انبیاء، اولیاء، علماءزراعت پیشہ رہے ہیں۔ زمین میں قدرت نے اجناس اور پھلوں سے جو نعمتیں پوشیدہ رکھی ہیں ان کا نکالنا یہ زراعت پیشہ اور باغبان حضرات ہی کا کام ہے۔ اور جاندار مخلوق کے لیے جو اجناس اور چارے کی ضرورت ہے اس کا مہیا کرنے والا بعونہ تعالیٰ ایک زراعت پیشہ کاشتکار ہی ہو سکتا ہے۔ قرآن مجید میں مختلف پہلوؤں سے ان فنون کا ذکر آیا ہے۔ سورۃ بقرۃ میں ہل جوتنے والے بیل کا ذکر ہے۔
خلاصہ یہ کہ اس فن کی شرافت میں کوئی شبہ نہیں ہے مگر دیکھا گیا ہے کہ زراعت پیشہ قومیں زیادہ تر مسکینی اور غربت اور ذلت کا شکار رہتی ہیں۔ پھر ان کے سروں پر مالیانے کا پہاڑ ایسا خطرناک ہوتا ہے کہ بسااوقات ان کو ذلیل کرکے رکھ دیتا ہے۔ احادیث متعلقہ مذمت میں یہی پہلو ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو یہ فن بہت قابل تعریف اور باعث رفع درجات دارین ہے۔ آج کے دور میں اس فن کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ جب کہ آج غذائی مسئلہ بنی نوع انسان کے لیے ایک اہم ترین اقتصادی مسئلہ بن گیا ہے۔ ہر حکومت زیادہ سے زیادہ اس فن پر توجہ دے رہی ہے۔
ذلت سے مراد یہ ہے کہ حکام ان سے پیسہ سے وصول کرنے میں ان پر طرح طرح کے ظلم توڑیں گے۔ حافظ نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسا فرمایا تھا وہ پورا ہوا۔ اکثر ظلم کا شکار کاشتکار لوگ ہی بنتے ہیں۔ بعض نے کہا ذلت سے یہ مراد ہے کہ جب رات دن کھیتی باڑی میں لگ جائیں گے تو سپاہ گری اور فنون جنگ بھول جائیں گے اور دشمن ان پر غالب ہوجائے گا۔
علامہ نووی احادیث زراعت کے ذیل فرماتے ہیں : فی ہذہ الاحادیث فضیلۃ الغرس وفضیلۃ الزرع و ان اجر فاعلی ذلک مستمر مادام الغراس و الزرع وما تولد منہ الی یوم القیامۃ و قد اختلف العلماءفی اطیب المکاسب و افضلہا فقیل التجارۃ و قیل الصنعۃ بالید و قیل الزراعۃ و ہو الصحیح و قد بسطت ایضاحہ فی اخر باب الاطعمۃ من شرح المہذب و فی ہذہ الاحادیث ایضا ان الثواب و الاجر فی الاخرۃ مختص بالمسلمین و ان الانسان یثاب علی ما سرق من مالہ او اتلفتہ دابۃ او طائر و نحوہما ( نووی )
یعنی ان احادیث میں درخت لگانے اور کھیتی کرنے کی فضیلت وارد ہے اور یہ کہ کاشتکار اور باغبان کا ثواب ہمیشہ جاری رہتا ہے جب تک بھی اس کی وہ کھیتی یا درخت رہتے ہیں۔ ثواب کا یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہ سکتا ہے۔ علماءکا اس بارے میں اختلاف ہے کہ بہترین کسب کون سا ہے۔ کہا گیا ہے کہ تجارت ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دستکاری بہترین کسب ہے اور کہا گیا ہے کہ بہترین کسب کھیتی باڑی ہے اور یہی صحیح ہے۔ اور میں نے باب الاطعمہ شرح مہذب میں اس کو تفصیل سے لکھا ہے اور ان احادیث میں یہ بھی ہے کہ آخرت کا اجر و ثواب مسلمانوں ہی کے لیے خاص ہے اور یہ بھی ہے کہ کاشتکار کی کھیتی میں سے کچھ چوری ہو جائے یا جانور پرندے کچھ اس میں نقصان کر دیں تو ان سب کے بدلے کاشتکار کو ثواب ملتا ہے۔
یا اللہ ! مجھ کو اور میرے بچوں کو ان احادیث کا مصداق بنائیو۔ جب کہ اپنا آبائی پیشہ کاشتکاری ہی ہے۔ اور یا اللہ ! اپنی برکتوں سے ہمیشہ نوازیو اور ہر قسم کی ذلت، مصیبت، پریشانی، تنگ حالی سے بچائیو، آمین ثم آمین
حضرت امام بخاری نے منعقدہ باب میں احادیث آمدہ در مدح زراعت و در ذم زراعت میں تطبیق پیش فرمائی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ کہ کھیتی باڑی اگر حد اعتدال میں کی جائے کہ اس کی وجہ سے فرائض اسلام کی ادائیگی میں کوئی تساہل نہ ہو تو وہ کھیتی قابل تعریف ہے۔ جس کی فضیلت حدیث واردہ میں نقل ہوئی ہے۔ اور اگر کھیتی باڑی میں اس قدر مشغولیت ہو جائے کہ ایک مسلمان اپنے دینی فرائض سے بھی غافل ہو جائے تو پھر وہ کھیتی قابل تعریف نہیں رہتی۔
ہدا من اخبارہ صلی اللہ علیہ وسلم بالمغیبات لان المشاہد الان ان اکثر الظلم انما ہو علی اہل الحرث و قد اشار البخاری بالترجمۃ الی الجمع بین حدیث ابی امامۃ و الحدیث الماضی فی فضل الزرع و الغرس و ذلک باحد الامرین اما ان یحمل ما ورد من الذم علی عاقبۃ ذلک و محلہ اذا اشتغل بہ فضیع بسببہ ما امر بحفظہ و اما ان یحمل علی ما اذا لم یضع الا انہ جاوز الحد فیہ و الذی یظہر ان کلام ابی امامۃ محمول علی من یتعاطی ذلک بنفسہ اما من لہ عمال یعملون لہ و ادخل دارہ الالۃ المذکورۃ لتحفظ لہم فلیس مراد لو یمکن الحمل علی عمومہ فان الذل شامل لکل من ادخل نفسہ ما یستلزم مطالبۃ اخر لہ و لا سیما اذا کان المطالب من الولاۃ و عن الداودی ہذا لمن یقرب من العدو فانہ اذا اشتغل بالحرث لا یشتغل بالفروسیۃ فیتاسد علیہ العدو فحقہم ان یشتغلوا بالفروسیۃ و علی غیرہم امدادہم بما یحتاجون الیہ ( فتح الباری )
یعنی یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان خبروں میں سے ہے جن کو مشاہدہ نے بالکل صحیح ثابت کر دیا۔ کیوں کہ اکثر مظالم کا شکار کاشتکار ہی ہوتے چلے آرہے ہیں اور حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب سے حدیث ابی امامہ اور حدیث سابقہ بابت فضیلت زراعت و باغبانی میں تطبیق پر اشارہ فرمایا ہے اور یہ دو امور میں سے ایک ہے۔ اول تو یہ کہ جو مذمت وارد ہے اسے اس کے انجام پر محمول کیا جائے، اگر انجام میں اس میں اس قدر مشغولیت ہو گئی کہ اسلامی فرائض سے بھی غافل ہونے لگا۔ دوسرے یہ بھی کہ فرائض کو تو ضائع نہیں کیا مگر حد اعتدال سے آگے تجاوز کرکے اس میں مشغول ہو گیا تو یہ پیشہ اچھا نہیں۔ اور ظاہر ہے کہ ابوامامہ والی حدیث ایسے ہی شخص پر وارد ہوگی جو خود اپنے طور پر اس میں مشغول ہو اور اس میں حد اعتدال سے تجاوز کرجائے۔ اور جس کے نوکر چاکر کام انجام دیتے ہوں اور حفاظت کے لیے آلات زراعت اس کے گھر میں رکھے جائیں تو ذم سے وہ شخص مراد نہ ہوگا۔ حدیث ذم عموم پر بھی محمول کی جاسکتی ہے کہ کاشتکاروں کو بسااوقات ادائے مالیہ کے لیے حکام کے سامنے ذلیل ہونا پڑتا ہے اور دواؤد نے کہا کہ یہ ذم اس کے لیے ہے جو دشمن سے قریب ہو کہ وہ کھیتی باڑی میں مشغول رہ کر دشمن سے بے خوف ہو جائے گا اور ایک دشمن ان کے اوپر چڑھ بیٹھے گا۔ پس ان کے لیے ضروری ہے کہ سپاہ گری میں مشغول رہیں اور حاجت کی اشیاءسے دوسرے لوگ ان کی مدد کریں۔
زراعت باغبانی ایک بہترین فن ہے۔ بہت سے انبیاء، اولیاء، علماءزراعت پیشہ رہے ہیں۔ زمین میں قدرت نے اجناس اور پھلوں سے جو نعمتیں پوشیدہ رکھی ہیں ان کا نکالنا یہ زراعت پیشہ اور باغبان حضرات ہی کا کام ہے۔ اور جاندار مخلوق کے لیے جو اجناس اور چارے کی ضرورت ہے اس کا مہیا کرنے والا بعونہ تعالیٰ ایک زراعت پیشہ کاشتکار ہی ہو سکتا ہے۔ قرآن مجید میں مختلف پہلوؤں سے ان فنون کا ذکر آیا ہے۔ سورۃ بقرۃ میں ہل جوتنے والے بیل کا ذکر ہے۔
خلاصہ یہ کہ اس فن کی شرافت میں کوئی شبہ نہیں ہے مگر دیکھا گیا ہے کہ زراعت پیشہ قومیں زیادہ تر مسکینی اور غربت اور ذلت کا شکار رہتی ہیں۔ پھر ان کے سروں پر مالیانے کا پہاڑ ایسا خطرناک ہوتا ہے کہ بسااوقات ان کو ذلیل کرکے رکھ دیتا ہے۔ احادیث متعلقہ مذمت میں یہی پہلو ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو یہ فن بہت قابل تعریف اور باعث رفع درجات دارین ہے۔ آج کے دور میں اس فن کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ جب کہ آج غذائی مسئلہ بنی نوع انسان کے لیے ایک اہم ترین اقتصادی مسئلہ بن گیا ہے۔ ہر حکومت زیادہ سے زیادہ اس فن پر توجہ دے رہی ہے۔
ذلت سے مراد یہ ہے کہ حکام ان سے پیسہ سے وصول کرنے میں ان پر طرح طرح کے ظلم توڑیں گے۔ حافظ نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسا فرمایا تھا وہ پورا ہوا۔ اکثر ظلم کا شکار کاشتکار لوگ ہی بنتے ہیں۔ بعض نے کہا ذلت سے یہ مراد ہے کہ جب رات دن کھیتی باڑی میں لگ جائیں گے تو سپاہ گری اور فنون جنگ بھول جائیں گے اور دشمن ان پر غالب ہوجائے گا۔
علامہ نووی احادیث زراعت کے ذیل فرماتے ہیں : فی ہذہ الاحادیث فضیلۃ الغرس وفضیلۃ الزرع و ان اجر فاعلی ذلک مستمر مادام الغراس و الزرع وما تولد منہ الی یوم القیامۃ و قد اختلف العلماءفی اطیب المکاسب و افضلہا فقیل التجارۃ و قیل الصنعۃ بالید و قیل الزراعۃ و ہو الصحیح و قد بسطت ایضاحہ فی اخر باب الاطعمۃ من شرح المہذب و فی ہذہ الاحادیث ایضا ان الثواب و الاجر فی الاخرۃ مختص بالمسلمین و ان الانسان یثاب علی ما سرق من مالہ او اتلفتہ دابۃ او طائر و نحوہما ( نووی )
یعنی ان احادیث میں درخت لگانے اور کھیتی کرنے کی فضیلت وارد ہے اور یہ کہ کاشتکار اور باغبان کا ثواب ہمیشہ جاری رہتا ہے جب تک بھی اس کی وہ کھیتی یا درخت رہتے ہیں۔ ثواب کا یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہ سکتا ہے۔ علماءکا اس بارے میں اختلاف ہے کہ بہترین کسب کون سا ہے۔ کہا گیا ہے کہ تجارت ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دستکاری بہترین کسب ہے اور کہا گیا ہے کہ بہترین کسب کھیتی باڑی ہے اور یہی صحیح ہے۔ اور میں نے باب الاطعمہ شرح مہذب میں اس کو تفصیل سے لکھا ہے اور ان احادیث میں یہ بھی ہے کہ آخرت کا اجر و ثواب مسلمانوں ہی کے لیے خاص ہے اور یہ بھی ہے کہ کاشتکار کی کھیتی میں سے کچھ چوری ہو جائے یا جانور پرندے کچھ اس میں نقصان کر دیں تو ان سب کے بدلے کاشتکار کو ثواب ملتا ہے۔
یا اللہ ! مجھ کو اور میرے بچوں کو ان احادیث کا مصداق بنائیو۔ جب کہ اپنا آبائی پیشہ کاشتکاری ہی ہے۔ اور یا اللہ ! اپنی برکتوں سے ہمیشہ نوازیو اور ہر قسم کی ذلت، مصیبت، پریشانی، تنگ حالی سے بچائیو، آمین ثم آمین