‌صحيح البخاري - حدیث 2318

كِتَابُ الوَكَالَةِ بَابُ إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِوَكِيلِهِ: ضَعْهُ حَيْثُ أَرَاكَ اللَّهُ، وَقَالَ الوَكِيلُ: قَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ صحيح حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ يَحْيَى قَالَ قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ كَانَ أَبُو طَلْحَةَ أَكْثَرَ الْأَنْصَارِ بِالْمَدِينَةِ مَالًا وَكَانَ أَحَبَّ أَمْوَالِهِ إِلَيْهِ بَيْرُحَاءَ وَكَانَتْ مُسْتَقْبِلَةَ الْمَسْجِدِ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَاءٍ فِيهَا طَيِّبٍ فَلَمَّا نَزَلَتْ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ قَامَ أَبُو طَلْحَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ فِي كِتَابِهِ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ وَإِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِي إِلَيَّ بَيْرُحَاءَ وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ لِلَّهِ أَرْجُو بِرَّهَا وَذُخْرَهَا عِنْدَ اللَّهِ فَضَعْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ حَيْثُ شِئْتَ فَقَالَ بَخٍ ذَلِكَ مَالٌ رَائِحٌ ذَلِكَ مَالٌ رَائِحٌ قَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ فِيهَا وَأَرَى أَنْ تَجْعَلَهَا فِي الْأَقْرَبِينَ قَالَ أَفْعَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَسَمَهَا أَبُو طَلْحَةَ فِي أَقَارِبِهِ وَبَنِي عَمِّهِ تَابَعَهُ إِسْمَاعِيلُ عَنْ مَالِكٍ وَقَالَ رَوْحٌ عَنْ مَالِكٍ رَابِحٌ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2318

کتاب: وکالت کے مسائل کا بیان باب : اگر کسی نے اپنے وکیل سے کہا کہ جہاں مناسب جانو اسے خرچ کرو، اور وکیل نے کہا کہ جو کچھ تم نے کہا ہے میں نے سن لیا مجھ سے یحییٰ بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے امام مالک کے سامنے قرات کی بواسطہ اسحاق بن عبداللہ کے کہ انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں انصار کے سب سے مالدار لوگوں میں سے تھے۔ بیر حاء ( ایک باغ ) ان کا سب سے زیادہ محبوب مال تھا۔ جو مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہاں تشریف لے جاتے اور اس کا نہایت میٹھا عمدہ پانی پیتے تھے۔ پھر جب قرآن کی آیت ﴾لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون﴿ اتری ( تم نیکی ہرگز نہیں حاصل کرسکتے جب تک نہ خرچ کرو اللہ کی راہ میں وہ چیز جو تمہیں زیادہ پسند ہو ) تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے ﴾لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون﴿ اور مجھے اپنے مال میں سب سے زیادہ پسند میرا یہی باغ بیر حاءہے۔ یہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے۔ اس کی نیکی اور ذخیرہ ثواب کی امید میں صرف اللہ تعالیٰ سے رکھتا ہوں۔ پس آپ جہاں مناسب سمجھیں اسے خرچ فرما دیں۔ آپ نے فرمایا، واہ واہ ! یہ بڑا ہی نفع والا مال ہے۔ بہت ہی مفید ہے۔ اس کے بارے میں تم نے جو کچھ کہا وہ میں نے سن لیا۔ اب میں تو یہی مناسب سمجھتا ہوں کہ اسے تو اپنے رشتہ داروں ہی میں تقسیم کر دے۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ ! میں ایسا کروں گا۔ چنانچہ یہ کنواں انہوں نے پنے رشتہ داروں اور چچا کی اولاد میں تقسیم کر دیا۔ اس روایت کی متابعت اسماعیل نے مالک سے کی ہے۔ اور روح نے مالک سے ( لفظ رائح کے بجائے ) رابح نقل کیا ہے۔
تشریح : حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے بیر حاءکے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وکیل ٹھہرایا اور آپ نے اسے انہی کے رشتہ داروں میں تقسیم کر دینے کا حکم فرمایا۔ اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا۔ چونکہ رشتہ داروں کا حق مقدم ہے اور وہی صاحب میراث بھی ہوتے ہیں۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہی کو ترجیح دی۔ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ہی بڑی دور اندیشی کا ثبوت ہے۔ یہ کنواں مدینہ شریف میں حرم نبوی کے قریب اب بھی موجود ہے اور میں نے بھی وہاںحاضری کا شرف حاصل کیا ہے۔ و الحمد للہ علی ذلک۔ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے بیر حاءکے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وکیل ٹھہرایا اور آپ نے اسے انہی کے رشتہ داروں میں تقسیم کر دینے کا حکم فرمایا۔ اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا۔ چونکہ رشتہ داروں کا حق مقدم ہے اور وہی صاحب میراث بھی ہوتے ہیں۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہی کو ترجیح دی۔ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ہی بڑی دور اندیشی کا ثبوت ہے۔ یہ کنواں مدینہ شریف میں حرم نبوی کے قریب اب بھی موجود ہے اور میں نے بھی وہاںحاضری کا شرف حاصل کیا ہے۔ و الحمد للہ علی ذلک۔