كِتَابُ الوَكَالَةِ بَابُ الوَكَالَةِ فِي البُدْنِ وَتَعَاهُدِهَا صحيح حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَزْمٍ عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَا فَتَلْتُ قَلَائِدَ هَدْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيَّ ثُمَّ قَلَّدَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيْهِ ثُمَّ بَعَثَ بِهَا مَعَ أَبِي فَلَمْ يَحْرُمْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْءٌ أَحَلَّهُ اللَّهُ لَهُ حَتَّى نُحِرَ الْهَدْيُ
کتاب: وکالت کے مسائل کا بیان
باب : قربانی کے اونٹوں میں وکالت اور ان کا نگرانی کرنے میں
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن ابی بکر بن حزم نے، انہیں عمرہ بنت عبدالرحمن نے خبر دی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، میں نے اپنے ہاتھوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے جانوروں کے قلادے بٹے تھے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جانوروں کو یہ قلادے اپنے ہاتھ سے پہنائے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ جانور میرے والد کے ساتھ ( مکہ میں قربانی کے لیے ) بھیجے۔ ان کی قربانی کی گئی۔ لیکن ( اس بھیجنے کی وجہ سے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی ایسی چیز حرام نہیں ہوئی جسے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال کیا تھا۔
تشریح :
حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے اونٹوں کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے قلادہ بٹنے میں آپ کی وکالت فرمائی۔
حضرت عائشہ صدیقہ ام المومنین رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحب زادی ہیں۔ ان کی والدہ ماجدہ کا نام ام رومان بنت عامر بن عویمر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شادی 10نبوی میں مکہ شریف میں ہوئی۔ 2ھ میں ہجرت سے18ماہ بعد رخصتی عمل میں آئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ9سال رہی ہیں کیوں کہ وصال نبوی کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر اٹھارہ سال کی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بہت بڑی فصیحہ فقیہ عالمہ، فاضلہ تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بکثرت احادیث آپ نے نقل کی ہیں۔ وقائع عرب و محاورات و اشعار کی زبردست واقف کار تھیں۔ صحابہ کرام اور تابعین عظام کے ایک بڑے طبقہ نے ان سے روایات نقل کی ہیں۔ مدینہ طیبہ میں 57ھ یا 58ھ میں شب سہ شنبہ میں آپ کا انتقال ہوا۔ وصیت کے مطابق شب میں بقیع غرقد میں آپ کو دفن کیا گیا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ جو ان دنوں معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں مدینہ میں مروان کے ماتحت تھے۔
بقیع غرقد مدینہ کا پرانا قبرستان ہے، جو مسجد نبوی سے تھوڑے ہی فاصلہ پر ہے۔ آج کل اس کی جانب مسجد نبوی سے ایک وسیع سڑک نکال دی گئی ہے۔ قبرستان کو چاروں طرف ایک اونچی فصیل سے گھیر دیا گیا ہے۔ اندر پرانی قبریں بیشتر نابود ہو چکی ہیں، اہل بدعت نے پہلے دور میں یہاں بعض صحابہ و دیگر بزرگان دین کے ناموں پر بڑے بڑے قبے بنا رکھے تھے۔ اور ان پر غلاف، پھول ڈالے جاتے۔ اور وہاں نذر نیازیں چڑھائی جاتی تھیں۔ سعودی حکومت نے حدیث نبوی کی روشنی میں ان سب کو مسمار کردیا ہے۔ پختہ قبریں بنانا شریعت اسلامیہ میں قطعاً منع ہے اور ان پر چادر پھول محدثات و بدعات ہیں۔ اللہ پاک مسلمانوں کو ایسی بدعات سے بچائے۔ آمین
حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے اونٹوں کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے قلادہ بٹنے میں آپ کی وکالت فرمائی۔
حضرت عائشہ صدیقہ ام المومنین رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحب زادی ہیں۔ ان کی والدہ ماجدہ کا نام ام رومان بنت عامر بن عویمر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شادی 10نبوی میں مکہ شریف میں ہوئی۔ 2ھ میں ہجرت سے18ماہ بعد رخصتی عمل میں آئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ9سال رہی ہیں کیوں کہ وصال نبوی کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر اٹھارہ سال کی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بہت بڑی فصیحہ فقیہ عالمہ، فاضلہ تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بکثرت احادیث آپ نے نقل کی ہیں۔ وقائع عرب و محاورات و اشعار کی زبردست واقف کار تھیں۔ صحابہ کرام اور تابعین عظام کے ایک بڑے طبقہ نے ان سے روایات نقل کی ہیں۔ مدینہ طیبہ میں 57ھ یا 58ھ میں شب سہ شنبہ میں آپ کا انتقال ہوا۔ وصیت کے مطابق شب میں بقیع غرقد میں آپ کو دفن کیا گیا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ جو ان دنوں معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں مدینہ میں مروان کے ماتحت تھے۔
بقیع غرقد مدینہ کا پرانا قبرستان ہے، جو مسجد نبوی سے تھوڑے ہی فاصلہ پر ہے۔ آج کل اس کی جانب مسجد نبوی سے ایک وسیع سڑک نکال دی گئی ہے۔ قبرستان کو چاروں طرف ایک اونچی فصیل سے گھیر دیا گیا ہے۔ اندر پرانی قبریں بیشتر نابود ہو چکی ہیں، اہل بدعت نے پہلے دور میں یہاں بعض صحابہ و دیگر بزرگان دین کے ناموں پر بڑے بڑے قبے بنا رکھے تھے۔ اور ان پر غلاف، پھول ڈالے جاتے۔ اور وہاں نذر نیازیں چڑھائی جاتی تھیں۔ سعودی حکومت نے حدیث نبوی کی روشنی میں ان سب کو مسمار کردیا ہے۔ پختہ قبریں بنانا شریعت اسلامیہ میں قطعاً منع ہے اور ان پر چادر پھول محدثات و بدعات ہیں۔ اللہ پاک مسلمانوں کو ایسی بدعات سے بچائے۔ آمین