‌صحيح البخاري - حدیث 2312

كِتَابُ الوَكَالَةِ بَابٌ: إِذَا بَاعَ الوَكِيلُ شَيْئًا فَاسِدًا، فَبَيْعُهُ مَرْدُودٌ صحيح حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ هُوَ ابْنُ سَلَّامٍ عَنْ يَحْيَى قَالَ سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ عَبْدِ الْغَافِرِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ جَاءَ بِلَالٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَمْرٍ بَرْنِيٍّ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَيْنَ هَذَا قَالَ بِلَالٌ كَانَ عِنْدَنَا تَمْرٌ رَدِيٌّ فَبِعْتُ مِنْهُ صَاعَيْنِ بِصَاعٍ لِنُطْعِمَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ أَوَّهْ أَوَّهْ عَيْنُ الرِّبَا عَيْنُ الرِّبَا لَا تَفْعَلْ وَلَكِنْ إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَشْتَرِيَ فَبِعْ التَّمْرَ بِبَيْعٍ آخَرَ ثُمَّ اشْتَرِهِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2312

کتاب: وکالت کے مسائل کا بیان باب : اگر وکیل کوئی ایسی بیع کرے جو فاسد ہو تو وہ بیع واپس کی جائے گی ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن صالح نے بیان کیا، ان سے معاویہ بن سلام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، کہ میں نے عقبہ بن عبدالغافر سے سنا اور انہوں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے بیان کیا کہ بلال رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں برنی کھجور ( کھجور کی ایک عمدہ قسم ) لے کر آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کہاں سے لائے ہو؟ انہوں نے کہا ہمارے پاس خراب کھجور تھی، اس کی دو صاع اس کی ایک صاع کے بدلے میں دے کر ہم اسے لائے ہیں۔ تاکہ ہم یہ آپ کو کھلائیں آپ نے فرمایا توبہ توبہ یہ تو سود ہے بالکل سود۔ ایسا نہ کیا کر البتہ ( اچھی کھجور ) خریدنے کا ارادہ ہو تو ( خراب ) کھجور بیچ کر ( اس کی قیمت سے ) عمدہ خریدا کر۔
تشریح : معلوم ہوا کہ ایک ہی جنس میں کمی و بیشی سے لین دین سود میں داخل ہے۔ اس کی صورت یہ بتلائی گئی کے گھٹیا جنس کو الگ نقد بیچ کر اس کے روپوں سے وہی بڑھیا جنس خرید لی جائے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی یہ بیع فاسد تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کر ا دیا۔ جیسا کہ مسلم کی روایت میں ہے۔ حضرت مولانا وحید الزماں نے مسلم شریف کی جس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے وہ باب الرباءمیں حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ ہی کی روایت سے منقول ہے۔ جس میں یہ الفاظ ہیں : فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہذہ الرباءفردوہ۔ الحدیث یعنی یہ سود ہے لہٰذا اس کو واپس لوٹا دو۔ اس پر علامہ نووی لکھتے ہیں : ہذا دلیل علی ان المقبوض ببیع فاسد یجب ردہ علی بائعہ و اذا ردہ استرد الثمن فان قیل فلم یذکر فی الحدیث السابق انہ صلی اللہ علیہ وسلم امر بردہ فالجواب ان الظاہر انہا قضیۃ واحدۃ و امر فیہا بردہ فبعض الرواۃ حفظ ذلک و بعضہم لم یحفظہ فقبلنا زیادہ الثقۃ و لو ثبت انہما قضیتان لحملت الاولی علی انہ ایضا امر بہ و ان لم یبلغنا ذلک و لو ثبت انہ لم یامر بہ مع انہما قضیتان لحملنا ہا علی انہ جہل بائعہ و لا یمکن معرفتہ فصار مالا ضائعا لمن علیہ دین بقیمتہ وہو التمر الذی قبضہ فحصل انہ لا اشکال فی الحدیث و للہ الحمد ( نووی ) یعنی یہ امر اس پر دلیل ہے کہ ایسی قبضہ میں لی ہوئی بیع بھی فاسد ہوگی جس کا بائع پر لوٹا لینا واجب ہے اور جب وہ بیع رد ہو گئی تو اس کی قیمت خود رد ہو گئی۔ اگر کہا جائے کہ حدیث سابق میں یہ مذکور نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے رد کرنے کا حکم فرمایا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ظاہر یہی کہ قضیہ ایک ہی ہے اور اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپسی کا حکم فرمایا۔ بعض راویوں نے اس کو یاد رکھا اور بعض نے یاد نہیں رکھا۔ پس ہم نے ثقہ راویوں کی زیادتی کو قبول کیا۔ اور اگر یہ ثابت ہوجائے کہ یہ دو قضیے ہیں تو پہلے کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ آپ نے یہی حکم فرمایا تھا اگرچہ یہ ہم تک نہیں پہنچ سکا۔ اور اگر یہ ثابت ہو کہ آپ نے یہ حکم نہیں فرمایا باوجودیکہ یہ دو قضیے ہیں۔ تو ہم اس پر محمول کریں گے کہ اس کا بائع مجہول ہوگیا اور وہ بعد میں پہچانا نہ جاسکا۔ تو اس صورت میں وہ مال ضائع ہو گیا اس شخص کے لیے جس نے اس کی قیمت کا بوجھ اپنے سر پر رکھا اور یہ وہی کھجور ہیں جو اس نے قبضہ میں لی ہے۔ پس حاصل ہوا کہ حدیث میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ الحمد للہ آج 5 صفر1390ھ کو حرم نبوی مدینہ طیبہ میں بوقت فجر بہ سلسلہ نظر ثانی یہ نوٹ لکھا گیا۔ معلوم ہوا کہ ایک ہی جنس میں کمی و بیشی سے لین دین سود میں داخل ہے۔ اس کی صورت یہ بتلائی گئی کے گھٹیا جنس کو الگ نقد بیچ کر اس کے روپوں سے وہی بڑھیا جنس خرید لی جائے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی یہ بیع فاسد تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کر ا دیا۔ جیسا کہ مسلم کی روایت میں ہے۔ حضرت مولانا وحید الزماں نے مسلم شریف کی جس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے وہ باب الرباءمیں حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ ہی کی روایت سے منقول ہے۔ جس میں یہ الفاظ ہیں : فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہذہ الرباءفردوہ۔ الحدیث یعنی یہ سود ہے لہٰذا اس کو واپس لوٹا دو۔ اس پر علامہ نووی لکھتے ہیں : ہذا دلیل علی ان المقبوض ببیع فاسد یجب ردہ علی بائعہ و اذا ردہ استرد الثمن فان قیل فلم یذکر فی الحدیث السابق انہ صلی اللہ علیہ وسلم امر بردہ فالجواب ان الظاہر انہا قضیۃ واحدۃ و امر فیہا بردہ فبعض الرواۃ حفظ ذلک و بعضہم لم یحفظہ فقبلنا زیادہ الثقۃ و لو ثبت انہما قضیتان لحملت الاولی علی انہ ایضا امر بہ و ان لم یبلغنا ذلک و لو ثبت انہ لم یامر بہ مع انہما قضیتان لحملنا ہا علی انہ جہل بائعہ و لا یمکن معرفتہ فصار مالا ضائعا لمن علیہ دین بقیمتہ وہو التمر الذی قبضہ فحصل انہ لا اشکال فی الحدیث و للہ الحمد ( نووی ) یعنی یہ امر اس پر دلیل ہے کہ ایسی قبضہ میں لی ہوئی بیع بھی فاسد ہوگی جس کا بائع پر لوٹا لینا واجب ہے اور جب وہ بیع رد ہو گئی تو اس کی قیمت خود رد ہو گئی۔ اگر کہا جائے کہ حدیث سابق میں یہ مذکور نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے رد کرنے کا حکم فرمایا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ظاہر یہی کہ قضیہ ایک ہی ہے اور اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپسی کا حکم فرمایا۔ بعض راویوں نے اس کو یاد رکھا اور بعض نے یاد نہیں رکھا۔ پس ہم نے ثقہ راویوں کی زیادتی کو قبول کیا۔ اور اگر یہ ثابت ہوجائے کہ یہ دو قضیے ہیں تو پہلے کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ آپ نے یہی حکم فرمایا تھا اگرچہ یہ ہم تک نہیں پہنچ سکا۔ اور اگر یہ ثابت ہو کہ آپ نے یہ حکم نہیں فرمایا باوجودیکہ یہ دو قضیے ہیں۔ تو ہم اس پر محمول کریں گے کہ اس کا بائع مجہول ہوگیا اور وہ بعد میں پہچانا نہ جاسکا۔ تو اس صورت میں وہ مال ضائع ہو گیا اس شخص کے لیے جس نے اس کی قیمت کا بوجھ اپنے سر پر رکھا اور یہ وہی کھجور ہیں جو اس نے قبضہ میں لی ہے۔ پس حاصل ہوا کہ حدیث میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ الحمد للہ آج 5 صفر1390ھ کو حرم نبوی مدینہ طیبہ میں بوقت فجر بہ سلسلہ نظر ثانی یہ نوٹ لکھا گیا۔