‌صحيح البخاري - حدیث 2311

كِتَابُ الوَكَالَةِ بَابُ إِذَا وَكَّلَ رَجُلًا، فَتَرَكَ الوَكِيلُ شَيْئًا صحيح وَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ الهَيْثَمِ أَبُو عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: وَكَّلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحِفْظِ زَكَاةِ رَمَضَانَ، فَأَتَانِي آتٍ فَجَعَلَ يَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ فَأَخَذْتُهُ، وَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنِّي مُحْتَاجٌ، وَعَلَيَّ عِيَالٌ وَلِي حَاجَةٌ شَدِيدَةٌ، قَالَ: فَخَلَّيْتُ عَنْهُ، فَأَصْبَحْتُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ البَارِحَةَ»، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، شَكَا حَاجَةً شَدِيدَةً، وَعِيَالًا، فَرَحِمْتُهُ، فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ، قَالَ: «أَمَا إِنَّهُ قَدْ كَذَبَكَ، وَسَيَعُودُ»، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ سَيَعُودُ، لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ سَيَعُودُ، فَرَصَدْتُهُ، فَجَاءَ يَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ، فَأَخَذْتُهُ، فَقُلْتُ: لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: دَعْنِي فَإِنِّي مُحْتَاجٌ وَعَلَيَّ عِيَالٌ، لاَ أَعُودُ، فَرَحِمْتُهُ، فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ، فَأَصْبَحْتُ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ»، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ شَكَا حَاجَةً شَدِيدَةً، وَعِيَالًا، فَرَحِمْتُهُ، فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ، قَالَ: «أَمَا إِنَّهُ قَدْ كَذَبَكَ وَسَيَعُودُ»، فَرَصَدْتُهُ الثَّالِثَةَ، فَجَاءَ يَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ، فَأَخَذْتُهُ، فَقُلْتُ: لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ، وَهَذَا آخِرُ ثَلاَثِ مَرَّاتٍ، أَنَّكَ تَزْعُمُ لاَ تَعُودُ، ثُمَّ تَعُودُ قَالَ: دَعْنِي أُعَلِّمْكَ كَلِمَاتٍ يَنْفَعُكَ اللَّهُ بِهَا، قُلْتُ: مَا هُوَ؟ قَالَ: إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشِكَ، فَاقْرَأْ آيَةَ الكُرْسِيِّ: {اللَّهُ لاَ إِلَهَ إِلَّا هُوَ الحَيُّ القَيُّومُ} [البقرة: 255]، حَتَّى تَخْتِمَ الآيَةَ، فَإِنَّكَ لَنْ يَزَالَ عَلَيْكَ مِنَ اللَّهِ حَافِظٌ، وَلاَ يَقْرَبَنَّكَ شَيْطَانٌ حَتَّى تُصْبِحَ، فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ، فَأَصْبَحْتُ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ البَارِحَةَ»، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، زَعَمَ أَنَّهُ يُعَلِّمُنِي كَلِمَاتٍ يَنْفَعُنِي اللَّهُ بِهَا، فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ، قَالَ: «مَا هِيَ»، قُلْتُ: قَالَ لِي: إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشِكَ فَاقْرَأْ آيَةَ الكُرْسِيِّ مِنْ أَوَّلِهَا حَتَّى تَخْتِمَ الآيَةَ: {اللَّهُ لاَ إِلَهَ إِلَّا هُوَ الحَيُّ القَيُّومُ} [البقرة: 255]، وَقَالَ لِي: لَنْ يَزَالَ عَلَيْكَ مِنَ اللَّهِ حَافِظٌ، وَلاَ يَقْرَبَكَ شَيْطَانٌ حَتَّى تُصْبِحَ - وَكَانُوا أَحْرَصَ شَيْءٍ عَلَى الخَيْرِ - فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَا إِنَّهُ قَدْ صَدَقَكَ وَهُوَ كَذُوبٌ، تَعْلَمُ مَنْ تُخَاطِبُ مُنْذُ ثَلاَثِ لَيَالٍ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ»، قَالَ: لاَ، قَالَ: «ذَاكَ شَيْطَانٌ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2311

کتاب: وکالت کے مسائل کا بیان باب : کسی نے ایک شخص کو وکیل بنایا پھر وکیل نے ( معاملہ میں ) کوئی چیز ( خود اپنی رائے سے ) چھوڑ دی اور عثمان بن ہیثم ابوعمرو نے بیان کیا کہ ہم سے عوف نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے رمضان کی زکوۃ کی حفاظت پر مقرر فرمایا۔ ( رات میں ) ایک شخص اچانک میرے پاس آیا اور غلہ میں سے لپ بھر بھر کر اٹھانے لگا میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ قسم اللہ کی ! میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے چلوں گا۔ اس پر اس نے کہا کہ اللہ کی قسم ! میں بہت محتاج ہوں۔ میرے بال بچے ہیں اور میں سخت ضرورت مند ہوں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا ( اس کے اظہار معذرت پر ) میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا، اے ابوہریرہ ! گذشتہ رات تمہارے قیدی نے کیا کیا تھا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ ! اس نے سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا، اس لیے مجھے اس پر رحم آگیا۔ اور میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے۔ ابھی وہ پھر آئے گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمانے کی وجہ سے مجھ کو یقین تھا کہ وہ پھر ضرور آئے گا۔ اس لیے میں اس کی تاک میں لگا رہا۔ اور جب وہ دوسری رات آکے پھر غلہ اٹھانے لگا تو میں نے اسے پھر پکڑا اور کہا کہ تجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کروں گا، لیکن اب بھی اس کی وہی التجا تھی کہ مجھے چھوڑ دے، میں محتاج ہوں۔ بال بچوں کا بوجھ میرے سر پر ہے۔ اب میں کبھی نہ آؤں گا۔ مجھے رحم آگیا اور میں نے اسے پھر چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوہریرہ ! تمہارے قیدی نے کیا کیا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ ! اس نے پھر اسی سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا۔ جس پر مجھے رحم آگیا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے اور وہ پھر آئے گا۔ تیسری مرتبہ پھر اس کے انتظار میں تھا کہ اس نے پھر تیسری رات آکر غلہ اٹھانا شروع کیا، تو میں نے اسے پکڑ لیا، اور کہا کہ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچانا اب ضروری ہو گیا ہے۔ یہ تیسرا موقع ہے۔ ہر مرتبہ تم یقین دلاتے رہے کہ پھر نہیں آؤگے۔ لیکن تم باز نہیں آئے۔ اس نے کہا کہ اس مرتبہ مجھے چھوڑ دے تو میں تمہیں ایسے چند کلمات سکھا دوں گا جس سے اللہ تعالیٰ تمہیں فائدہ پہنچائے گا۔ میں نے پوچھاوہ کلمات کیا ہیں؟ اس نے کہا، جب تم اپنے بستر پر لیٹنے لگو تو آیت الکرسی اللہ لا الہ الا ہو الحی القیوم پوری پڑھ لیا کرو۔ ایک نگراں فرشتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے برابر تمہاری حفاظت کرتا رہے گا۔ اور صبح تک شیطان تمہارے پاس کبھی نہیں آسکے گا۔ اس مرتبہ بھی پھر میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، گذشتہ رات تمہارے قیدی نے تم سے کیا معاملہ کیا؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس نے مجھے چند کلمات سکھائے اور یقین دلایا کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے فائدہ پہنچائے گا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے دریافت کیا کہ وہ کلمات کیا ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ اس نے بتایا تھا کہ جب بستر پر لیٹو تو آیت الکرسی پڑھ لو، شروع اللہ لا الہ الا ہو الحی القیوم سے آخر تک۔ اس نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر ( اس کے پڑھنے سے ) ایک نگراں فرشتہ مقرر رہے گا۔ اور صبح تک شیطان تمہارے قریب بھی نہیں آسکے گا۔ صحابہ خیر کو سب سے آگے بڑھ کر لینے والے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ان کی یہ بات سن کر ) فرمایا کہ اگرچہ وہ جھوٹا تھا۔ لیکن تم سے یہ بات سچ کہہ گیا ہے۔ اے ابوہریرہ ! تم کو یہ بھی معلوم ہے کہ تین راتوں سے تمہارا معاملہ کس سے تھا؟ انہوں نے کہا نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شیطان تھا۔
تشریح : ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے صدقہ کی کھجور میں ہاتھ کا نشان دیکھا تھا۔ جیسے اس میں سے کوئی اٹھا کر لے گیا ہو۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی۔ آپ نے فرمایا کیا تو اس کو پکڑنا چاہتا ہے؟ تو یوں کہہ سبحان من سخرک لمحمد ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے یہی کہا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ میرے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ میں نے اس کو پکڑ لیا۔ ( وحیدی ) معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت میں اتنا زیادہ ہے اور اٰمن الرسول سے اخیر سورۃ تک۔ اس میں یوں ہے کہ صدقہ کی کھجور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میری حفاظت میں دی تھی۔ میں جو دیکھوں تو روز بروز وہ کم ہو رہی ہے۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا شکوہ کیا، آپ نے فرمایا، یہ شیطان کا کام ہے۔ پھر میں اس کو تاکتا رہا۔ وہ ہاتھی کی صورت میں نمودار ہوا۔ جب دروازے کے قریب پہنچا تو دراڑوں میں سے صورت بدل کر اند رچلا آیا اور کھجوروں کے پاس آکر اس کے لقمے لگانے لگا۔ میں نے اپنے کپڑے مضبوط باندھے اور اس کی کمر پکڑی، میں نے کہا اللہ کے دشمن تو نے صدقہ کی کھجور اڑادی۔ دوسرے لوگ تجھ سے زیادہ اس کے حقدار تھے۔ میں تو تجھ کو پکڑ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جاؤں گا۔ وہاں تیری خوب فضیحت ہوگی۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ میں نے پوچھا تو میرے گھر میں کھجور کھانے کے لیے کیوں گھسا۔ کہنے لگا میں بوڑھا، محتاج، عیالدار ہوں اور نصیبین سے آرہا ہوں۔ اگر مجھے کہیں اور کچھ مل جاتا تو میں تیرے پاس نہ آتا۔ اور ہم تمہارے ہی شہر میں رہا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ تمہارے پیغمبر صاحب ہوئے۔ جب ان پر یہ دو آیتیں اتریں تو ہم بھاگ گئے۔ اگر تو مجھ کو چھوڑ دے تو میں وہ آتیں تجھ کو سکھلا دوں گا۔ میں نے کہا اچھا۔ پھر اس نے آیت الکرسی اور اٰمن الرسول سے سورۃ بقرۃ کے اخیر تک بتلائی ( فتح ) نسائی کی روایت میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے یوں روایت ہے۔ میرے پاس کھجور کا ایک تھیلا تھا۔ اس میں سے روز کھجور کم ہو رہی تھی۔ ایک دن میں نے دیکھا، ایک جوان خوبصورت لڑکا وہاں موجود ہے۔ میں نے پوچھا تو آدمی ہے یا جن ہے۔ وہ کہنے لگا میں جن ہوں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ ہم تم سے کیسے بچیں؟ اس نے کہا آیت الکرسی پڑھ کر۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر آیا۔ آپ نے فرمایا : اس خبیث نے سچ کہا۔ معلوم ہوا جس کھانے پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اس میں شیطان شریک ہو جاتے ہیں۔ اور شیطان کا دیکھنا ممکن ہے جب وہ اپنی خلقی صورت بدل لے۔ ( وحیدی ) حافظ صاحب فرماتے ہیں : و فی الحدیث من الفوائد غیر ما تقدم ان الشیطان قد یعلم ما ینتفع بہ المومن و ان الحکمۃ قد ینلقاہا الفاجر فلا ینتفع بہا و توخذ عنہ فینتفع بہا و ان الشخص قد یعلم الشی و لا یعمل بہ و ان الکافر قد یصدق ببعض ما یصدق بہ المومنین و لا یکون بذلک مومنا و بان الکذاب قد یصدق و بان الشیطان من شانہ ان یکذب و ان من اقیم فی حفظ شی سمی وکیلا و ان الجن یاکلون من طعام الانس و انہم یظہرون للانس لکن بالشرط المذکور وانہم یتکلمون بکلام الانس و انہم یسرقون و یخدعون و فیہ فضل آیۃ الکرسی و فضل آخر سورۃ البقرۃ و ان الجن یصیبون من الطعام الذی لا یذکر اسم اللہ علیہ الخ ( فتح الباری ) یعنی اس حدیث میں بہت سے فوائد ہیں۔ جن میں سے ایک یہ کہ شیطان ایسی باتیں بھی جانتا ہے جن سے مومن فائدہ اٹھا سکتا ہے اور کبھی حکمت کی باتیں فاجر کے منہ سے بھی نکل جاتی ہے۔ وہ خود تو ان سے فائدہ نہیں اٹھاتا مگر دوسرے اس سے سبق حاصل کرسکتے ہیں۔ اور نفع حاصل کرسکتے۔ اور بعض آدمی کچھ اچھی بات جانتے ہیں مگر خود اس پر عمل نہیں کرتے۔ اور بعض کافر ایسی قابل تصدیق بات کہہ دیتے ہیں جیسی اہل ایمان مگر وہ کافر اس سے مومن نہیں ہوجاتے۔ اور بعض دفعہ جھوٹوں کی بھی تصدیق کی جاسکتی ہے اور شیطان کی شان ہی یہ ہے کہ اسے جھوٹا کہا جائے اور یہ کہ جسے کسی چیز کی حفاظت پر مقرر کیا جائے اسے وکیل کہا جاتا ہے۔ اور یہ کہ جنات انسانی غدائیں کھاتے ہیں۔ اور وہ انسانوں کے سامنے ظاہر بھی ہوسکتے ہیں لیکن اس شرط کے ساتھ جو مذکور ہوئی اور یہ بھی کہ وہ انسانی زبانوں میں کلام بھی کرسکتے ہیں۔ اور وہ چوری بھی کرسکتے ہیں۔ اور وہ دھوکہ بازی بھی کرسکتے ہیں اور اس میں آیت الکرسی اور آخر سورۃ بقرہ کی بھی فضلیت ہے اور یہ بھی کہ شیطان اس غذا کو حاصل کرلیتے ہیں۔ جس پر اللہ کا نام نہیں لیا جاتا۔ آج 20ذی الحجہ1389ھ میں بوقت مغرب مقام ابراہیم کے پاس یہ نوٹ لکھا گیا۔ نیز آج 5 صفر1389ھ کو مدینہ طیبہ حرم نبوی میں بوقت فجر اس پر نظر ثانی کی گئی۔ ربنا تقبل منا و اغفرلنا ان نسینا او اخطانا آمین ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے صدقہ کی کھجور میں ہاتھ کا نشان دیکھا تھا۔ جیسے اس میں سے کوئی اٹھا کر لے گیا ہو۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی۔ آپ نے فرمایا کیا تو اس کو پکڑنا چاہتا ہے؟ تو یوں کہہ سبحان من سخرک لمحمد ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے یہی کہا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ میرے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ میں نے اس کو پکڑ لیا۔ ( وحیدی ) معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت میں اتنا زیادہ ہے اور اٰمن الرسول سے اخیر سورۃ تک۔ اس میں یوں ہے کہ صدقہ کی کھجور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میری حفاظت میں دی تھی۔ میں جو دیکھوں تو روز بروز وہ کم ہو رہی ہے۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا شکوہ کیا، آپ نے فرمایا، یہ شیطان کا کام ہے۔ پھر میں اس کو تاکتا رہا۔ وہ ہاتھی کی صورت میں نمودار ہوا۔ جب دروازے کے قریب پہنچا تو دراڑوں میں سے صورت بدل کر اند رچلا آیا اور کھجوروں کے پاس آکر اس کے لقمے لگانے لگا۔ میں نے اپنے کپڑے مضبوط باندھے اور اس کی کمر پکڑی، میں نے کہا اللہ کے دشمن تو نے صدقہ کی کھجور اڑادی۔ دوسرے لوگ تجھ سے زیادہ اس کے حقدار تھے۔ میں تو تجھ کو پکڑ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جاؤں گا۔ وہاں تیری خوب فضیحت ہوگی۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ میں نے پوچھا تو میرے گھر میں کھجور کھانے کے لیے کیوں گھسا۔ کہنے لگا میں بوڑھا، محتاج، عیالدار ہوں اور نصیبین سے آرہا ہوں۔ اگر مجھے کہیں اور کچھ مل جاتا تو میں تیرے پاس نہ آتا۔ اور ہم تمہارے ہی شہر میں رہا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ تمہارے پیغمبر صاحب ہوئے۔ جب ان پر یہ دو آیتیں اتریں تو ہم بھاگ گئے۔ اگر تو مجھ کو چھوڑ دے تو میں وہ آتیں تجھ کو سکھلا دوں گا۔ میں نے کہا اچھا۔ پھر اس نے آیت الکرسی اور اٰمن الرسول سے سورۃ بقرۃ کے اخیر تک بتلائی ( فتح ) نسائی کی روایت میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے یوں روایت ہے۔ میرے پاس کھجور کا ایک تھیلا تھا۔ اس میں سے روز کھجور کم ہو رہی تھی۔ ایک دن میں نے دیکھا، ایک جوان خوبصورت لڑکا وہاں موجود ہے۔ میں نے پوچھا تو آدمی ہے یا جن ہے۔ وہ کہنے لگا میں جن ہوں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ ہم تم سے کیسے بچیں؟ اس نے کہا آیت الکرسی پڑھ کر۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر آیا۔ آپ نے فرمایا : اس خبیث نے سچ کہا۔ معلوم ہوا جس کھانے پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اس میں شیطان شریک ہو جاتے ہیں۔ اور شیطان کا دیکھنا ممکن ہے جب وہ اپنی خلقی صورت بدل لے۔ ( وحیدی ) حافظ صاحب فرماتے ہیں : و فی الحدیث من الفوائد غیر ما تقدم ان الشیطان قد یعلم ما ینتفع بہ المومن و ان الحکمۃ قد ینلقاہا الفاجر فلا ینتفع بہا و توخذ عنہ فینتفع بہا و ان الشخص قد یعلم الشی و لا یعمل بہ و ان الکافر قد یصدق ببعض ما یصدق بہ المومنین و لا یکون بذلک مومنا و بان الکذاب قد یصدق و بان الشیطان من شانہ ان یکذب و ان من اقیم فی حفظ شی سمی وکیلا و ان الجن یاکلون من طعام الانس و انہم یظہرون للانس لکن بالشرط المذکور وانہم یتکلمون بکلام الانس و انہم یسرقون و یخدعون و فیہ فضل آیۃ الکرسی و فضل آخر سورۃ البقرۃ و ان الجن یصیبون من الطعام الذی لا یذکر اسم اللہ علیہ الخ ( فتح الباری ) یعنی اس حدیث میں بہت سے فوائد ہیں۔ جن میں سے ایک یہ کہ شیطان ایسی باتیں بھی جانتا ہے جن سے مومن فائدہ اٹھا سکتا ہے اور کبھی حکمت کی باتیں فاجر کے منہ سے بھی نکل جاتی ہے۔ وہ خود تو ان سے فائدہ نہیں اٹھاتا مگر دوسرے اس سے سبق حاصل کرسکتے ہیں۔ اور نفع حاصل کرسکتے۔ اور بعض آدمی کچھ اچھی بات جانتے ہیں مگر خود اس پر عمل نہیں کرتے۔ اور بعض کافر ایسی قابل تصدیق بات کہہ دیتے ہیں جیسی اہل ایمان مگر وہ کافر اس سے مومن نہیں ہوجاتے۔ اور بعض دفعہ جھوٹوں کی بھی تصدیق کی جاسکتی ہے اور شیطان کی شان ہی یہ ہے کہ اسے جھوٹا کہا جائے اور یہ کہ جسے کسی چیز کی حفاظت پر مقرر کیا جائے اسے وکیل کہا جاتا ہے۔ اور یہ کہ جنات انسانی غدائیں کھاتے ہیں۔ اور وہ انسانوں کے سامنے ظاہر بھی ہوسکتے ہیں لیکن اس شرط کے ساتھ جو مذکور ہوئی اور یہ بھی کہ وہ انسانی زبانوں میں کلام بھی کرسکتے ہیں۔ اور وہ چوری بھی کرسکتے ہیں۔ اور وہ دھوکہ بازی بھی کرسکتے ہیں اور اس میں آیت الکرسی اور آخر سورۃ بقرہ کی بھی فضلیت ہے اور یہ بھی کہ شیطان اس غذا کو حاصل کرلیتے ہیں۔ جس پر اللہ کا نام نہیں لیا جاتا۔ آج 20ذی الحجہ1389ھ میں بوقت مغرب مقام ابراہیم کے پاس یہ نوٹ لکھا گیا۔ نیز آج 5 صفر1389ھ کو مدینہ طیبہ حرم نبوی میں بوقت فجر اس پر نظر ثانی کی گئی۔ ربنا تقبل منا و اغفرلنا ان نسینا او اخطانا آمین