‌صحيح البخاري - حدیث 2309

كِتَابُ الوَكَالَةِ بَابُ إِذَا وَكَّلَ رَجُلٌ رَجُلًا أَنْ يُعْطِيَ شَيْئًا، وَلَمْ يُبَيِّنْ كَمْ يُعْطِي، فَأَعْطَى عَلَى مَا يَتَعَارَفُهُ النَّاسُ صحيح حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ وَغَيْرِهِ يَزِيدُ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَلَمْ يُبَلِّغْهُ كُلُّهُمْ رَجُلٌ وَاحِدٌ مِنْهُمْ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَكُنْتُ عَلَى جَمَلٍ ثَفَالٍ إِنَّمَا هُوَ فِي آخِرِ الْقَوْمِ فَمَرَّ بِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَنْ هَذَا قُلْتُ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ مَا لَكَ قُلْتُ إِنِّي عَلَى جَمَلٍ ثَفَالٍ قَالَ أَمَعَكَ قَضِيبٌ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ أَعْطِنِيهِ فَأَعْطَيْتُهُ فَضَرَبَهُ فَزَجَرَهُ فَكَانَ مِنْ ذَلِكَ الْمَكَانِ مِنْ أَوَّلِ الْقَوْمِ قَالَ بِعْنِيهِ فَقُلْتُ بَلْ هُوَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ بَلْ بِعْنِيهِ قَدْ أَخَذْتُهُ بِأَرْبَعَةِ دَنَانِيرَ وَلَكَ ظَهْرُهُ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْ الْمَدِينَةِ أَخَذْتُ أَرْتَحِلُ قَالَ أَيْنَ تُرِيدُ قُلْتُ تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً قَدْ خَلَا مِنْهَا قَالَ فَهَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ قُلْتُ إِنَّ أَبِي تُوُفِّيَ وَتَرَكَ بَنَاتٍ فَأَرَدْتُ أَنْ أَنْكِحَ امْرَأَةً قَدْ جَرَّبَتْ خَلَا مِنْهَا قَالَ فَذَلِكَ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ قَالَ يَا بِلَالُ اقْضِهِ وَزِدْهُ فَأَعْطَاهُ أَرْبَعَةَ دَنَانِيرَ وَزَادَهُ قِيرَاطًا قَالَ جَابِرٌ لَا تُفَارِقُنِي زِيَادَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَكُنْ الْقِيرَاطُ يُفَارِقُ جِرَابَ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2309

کتاب: وکالت کے مسائل کا بیان باب : ایک شخص نے کسی دوسرے شخص کو کچھ دینے کے لیے وکیل کیا، لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ کتنا دے، اور وکیل نے لوگوں کے جانے ہوئے دستور کے مطابق دے دیا ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے عطاءبن ابی رباح اور کئی لوگوں نے ایک دوسرے کی روایت میں زیادتی کے ساتھ۔ سب راویوں نے اس حدیث کو جابر رضی اللہ عنہ تک نہیں پہنچایا بلکہ ایک راوی نے ان میں مرسلاً روایت کیا ہے۔ وہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا، میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا اور میں ایک سست اونٹ پر سوار تھا اور وہ سب سے آخر میں رہتا تھا۔ اتفاق سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر میری طرف سے ہوا تو آپ نے فرمایا یہ کون صاحب ہیں؟ میں نے عرض کیا جابر بن عبداللہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا بات ہوئی ( کہ اتنے پیچھے رہ گئے ہو ) میں بولا کہ ایک نہایت سست رفتار اونٹ پر سوار ہوں۔ آپ نے فرمایا، تمہارے پاس کوئی چھڑی بھی ہے؟ میں نے کہا کہ جی ہاں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ وہ مجھے دے دے۔ میں نے آپ کی خدمت میں وہ پیش کر دی۔ آپ نے اس چھڑی سے اونٹ کو جو مارا اور ڈانٹا تو اس کے بعد وہ سب سے ٓاگے رہنے لگا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ یہ اونٹ مجھے فروخت کردے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے مجھے فروخت کردے۔ یہ بھی فرمایا کہ چار دینار میں اسے میں خریدتا ہوں ویسے تم مدینہ تک اسی پر سوار ہو کر چل سکتے ہو۔ پھر جب مدینہ کے قریب ہم پہنچے تو میں ( دوسری طرف ) جانے لگا۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ کہاں جارہے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے ایک بیوہ عورت سے شادی کر لی ہے آپ نے فرمایا کہ کسی باکرہ سے کیوں نہ کی کہ تم بھی اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ بھی تمہارے ساتھ کھیلتی۔ میں نے عرض کیا کہ والد شہادت پاچکے ہیں۔ اور گھر میں کئی بہنیں ہیں۔ اس لیے میں نے سوچا کہ کسی ایسی خاتون سے شادی کروں جو بیوہ اور تجربہ کار ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تو ٹھیک ہے، پھر مدینہ پہنچنے کے بعد آپ نے فرمایا کہ بلال ! ان کی قیمت ادا کردو اور کچھ بڑھا کر دے دو۔ چنانچہ انہوں نے چار دینار بھی دئیے۔ اور فالتو ایک قیراط بھی دیا۔ جابر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ انعام میں اپنے سے کبھی جدا نہیں کرتا، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ قیراط جابر رضی اللہ عنہ ہمیشہ اپنی تھیلی میں محفوظ رکھا کرتے تھے۔
تشریح : ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو صاف یہ نہیں فرمایا کہ اتنا زیادہ دے دو۔ مگر حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اپنی رائے سے زمانہ کے رواج کے مطابق ایک قیراط جھکتا ہوا سونا زیادہ دیا۔ الفاظ فلم یکن القیراط یفارق جراب جابر بن عبداللہ کا ترجمہ بعض نے یوں کیا کہ ان کی تلوار کی نیام میں رہتا۔ امام مسلم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ جب حرہ کے دن یزید کی طرف سے شام والوں کا بلوہ مدینہ منورہ پر ہوا تو انہوں نے یہ سونا حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے چھین لیا تھا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے اس عمل سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کوئی اپنے کسی بزرگ کے عطیہ کو یا اس کی اور کسی حقیقی یادگار کو تاریخی طور پر اپنے پاس محفوظ رکھے تو کوئی گناہ نہیں ہے۔ اس حدیث سے آیت قرآنی لقد جاءکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم کی تفسیر بھی سمجھ میں آئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مسلمان کی ادنی تکلیف کو بھی دیکھنا گوارا نہیں فرماتے تھے۔ آپ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو جب دیکھا کہ وہ اس سست اونٹ کی وجہ سے تکلیف محسوس کر رہے ہیں تو آپ کو خود اس کا احساس ہوا۔ اور آپ نے اللہ کا نام لے کر اونٹ پر جو چھڑی ماری اس سے وہ اونٹ تیز رفتار ہو گیا اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی مزید دل جوئی کے لیے آپ نے اسے خرید بھی لیا۔ اور مدینہ تک اس پر سواری کی اجازت بھی مرحمت فرمائی۔ آپ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے شادی کی بابت بی گفتگو فرمائی۔ معلوم ہوا کہ اس قسم کی گفتگو معیوب نہیں ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی معلوم ہوا کہ تعلیم و تربیت محمدی نے ان کے اخلاق کو کس قدر بلندی بخش دی تھی کہ محض بہنوں کی خدمت کی خاطر بیوہ عورت سے شادی کو ترجیح دی اور باکرہ کو پسند نہیں فرمایا جب کہ عام جوانوں کا رجحان طبع ایسا ہی ہوتا ہے۔ حدیث اور باب میں مطابقت اوپر بیان کی جاچکی ہے۔ مسلم شریف کتاب البیوع میں یہ حدیث مزید تفصیلات کے ساتھ موجود ہے جس پر علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں فیہ حدیث جابر و ہو حدیث مشہور احتج بہ احمد ومن وافقہ فی جواز بیع الدابۃ و یشترط البائع لنفسہ رکوبہا یعنی حدیث مذکور جابر کے ساتھ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے موافقین نے دلیل پکڑی ہے کہ جانور کا بیچنا اور بیچنے والے کا اس کی وقتی سواری کے لیے شرط کر لینا جائز ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ یہ جواز اس وقت ہے جب کہ مسافت قریب ہو۔ اور یہ حدیث اسی معنی پر محمول ہے۔ اسی حدیث جابر کے ذیل میں علامہ نووی دوسری جگہ فرماتے ہیں : و اعلم ان فی حدیث جابر ہذا فوائد کثیرۃ احداہا : ہذہ المعجزۃ الظاہرۃ لرسول صلی اللہ علیہ وسلم فی انبعاث جمل جابر و ا سراعہ بعد اعیائہ، الثانیۃ : جواز طلب البیع لمن لم یعرض سلعۃ للبیع، الثالثۃ : جواز المماکسۃ فی البیع، الرابعۃ : استحباب سوال الرجل الکبیر اصحابہ عن احوالہم و الا شارۃ علیہم بمصالحہم، الخامسۃ : استحباب نکاح البکر، السادسۃ : استحباب ملاعبۃ الزوجین السابعۃ فضیلۃ جابر فی ان ترک حظ نفسہ من نکاح البکر و اختار مصلحۃ اخوانہ بنکاح ثیب تقوم بمصالحہن، الثامنۃ : استحباب الابتداءبالمسجد و صلاۃ رکعتین فیہ عند القدوم من السفر التاسعۃ استحباب الدلالۃ علی الخیر المعاشرۃ استحباب ارجاع المیزان فیما یدفعہ الحادیۃ عشرۃ ان اجرۃ وزن الثمن علی البائع الثانیۃ عشرۃ التبرک بآثار الصالحین لقولہ لا تفارقہ زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الثالثۃ عشرۃ جواز تقدم بعض الجیش الراجعین باذن الامیر الرابعۃ عشرۃ جواز الوکالۃ فی اداءالحقوق و نحوہا و فیہ غیر ذلک مما سبق۔ واللہ اعلم ( نووی ) یعنی یہ حدیث بہت سے فوائد پر مشتمل ہے ایک تو اس میں ظاہری معجزہ نبوی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے فضل سے تھکے ہوئے اونٹ کو چست و چالاک بنا دیا۔ اور وہ خوب چلنے لگ گیا۔ دوسرا امر یہ بھی ثابت ہوا کہ کوئی شخص اپنا سامان نہ بیچنا چاہے تو بھی اس سے اسے بیچنے کے لیے کہا جاسکتا ہے، اور یہ کوئی عیب نہیں ہے ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ اونٹ بیچنا نہیں چاہتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کو یہ اونٹ بیچ دینے کے لیے فرمایا۔ تیسرے بیع میں شرط کرنے کا جواز بھی ثابت ہوا۔ چوتھے یہ استحباب ثابت ہوا کہ بڑا آدمی اپنے ساتھیوں سے ان کے خانگی احوال دریافت کرسکتا ہے اور حسب مقتضائے وقت ان کے فائدے کے لیے مشورہ بھی دے سکتا ہے۔ پانچویں کنواری عورت سے شادی کرنے کا استحباب ثابت ہوا۔ چھٹے میاں بیوی کا خوش طبعی کرنے کا جواز ثابت ہوا۔ ساتویں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی فضیلت بھی ثابت ہوئی کہ انہوں نے اپنی بہنوں کے فائدے کے لیے اپنی شادی کے لیے ایک بیوہ عورت کو پسند کیا۔ آٹھواں یہ امر بھی ثابت ہوا کہ سفر سے واپسی پر پہلے مسجد میں جانا اور دو رکعت شکرانہ کی ادا کرنا مستحب ہے۔ نواں امر یہ ثابت ہوا کہ نیک کام کرنے کے لیے رغبت دلانا بھی مستحب ہے۔ دسواں امر یہ ثابت ہوا کہ کسی حق کا ادا کرتے وقت ترازو کو جھکا کر زیادہ ( یابصورت نقد کچھ زیادہ ) دینا مستحب ہے۔ گیارہواں امر یہ ثابت ہوا کہ تولنے والے کی اجرت بیچنے والے کے سر ہے۔ بارہواں امر یہ ثابت ہوا کہ آثار صالحین کو تبرک کے طور پر محفوظ رکھنا جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امر کے مطابق زیادہ پایا ہوا سونا اپنے پاس عرصہ دراز تک محفوظ رکھا۔ تیرہواں امر یہ بھی ثابت ہوا بعض اسلامی لشکر کو مقدم رکھا جاسکتا ہے جو امیر کی اجازت سے مراجعت کرنے والے ہوں۔ چودہواں امر ادائے حقوق کے سلسلہ میں وکالت کرنے کا جواز ثابت ہوا اور بھی کئی امور ثابت ہوئے جو گزر چکے ہیں۔ آثار صالحین کو تبرک کے طور پر اپنے پاس محفوظ رکھنا، یہ نازک معاملہ ہے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ وہ حقیقتاً صحیح طور پر آثار صالحین ہوں، جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو یقینا معلوم تھا کہ یہ قیراط مجھ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود از راہ کرام فالتو دلایا ہے ایسا یقین کامل حاصل ہونا ضروری ہے ورنہ غیر ثابت شدہ اشیاءکو صالحین کی طرف منسوب کرکے ان کو بطور تبرک رکھنا یہ کذب اور افتراءبھی بن سکتا ہے۔ اکثر مقامات پر دیکھا گیا ہے کہ لوگوں نے کچھ بال محفوظ کرکے ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیا ہے۔ پھر ان سے تبرک حاصل کرنا شرک کی حدود میں داخل ہو گیا ہے۔ ایسی مشکوک چیزوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا بڑی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ حقیقت کے خلاف ہیں تو یہ منسوب کرنے والے زندہ دوزخی بن جاتے ہیں۔ کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا افترا کرنے والوں کو زندہ دوزخی بتلایا ہے بصورت دیگر اگر ایسی چیز تاریخ سے صحیح ثابت ہے تو اسے چومنا چاٹنا، اس کے سامنے سر جھکانا، اس پر نذر و نیاز چڑھانا اس کی تعظیم میں حد اعتدال سے آگے گزر جانا یہ جملہ امور ایک مسلمان کو شرک جیسے قبیح گناہ میں داخل کردیتے ہیں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بلاشبہ اس کو ایک تاریخی یادگار کے طور پر اپنے پاس رکھا۔ مگر یہ ثابت نہیں کہ اس کو چوما چاٹا ہو، اسے نذ ر نیاز کا حق دار گردانا ہو۔ اس پر پھول ڈالے ہوں یا اس کو وسیلہ بنایا ہو۔ ان میں سے کوئی بھی امر ہرگز ہرگز حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے پس اس بارے میں بہت سوچ سمجھ کی ضرورت ہے۔ شرک ایک بدترین گناہ ہے اور باریک بھی اس قدر کہ کتنے ہی دینداری کا دعوی کرنے والے امور شرک کے مرتکب ہو کر عند اللہ دوزخ میں خلود کے مستحق بن جاتے ہیں۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو ہر قسم کے شرک خفی و جلی، صغیر و کبیر سے محفوظ رکھے، آمین۔ ثم آمین ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو صاف یہ نہیں فرمایا کہ اتنا زیادہ دے دو۔ مگر حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اپنی رائے سے زمانہ کے رواج کے مطابق ایک قیراط جھکتا ہوا سونا زیادہ دیا۔ الفاظ فلم یکن القیراط یفارق جراب جابر بن عبداللہ کا ترجمہ بعض نے یوں کیا کہ ان کی تلوار کی نیام میں رہتا۔ امام مسلم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ جب حرہ کے دن یزید کی طرف سے شام والوں کا بلوہ مدینہ منورہ پر ہوا تو انہوں نے یہ سونا حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے چھین لیا تھا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے اس عمل سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کوئی اپنے کسی بزرگ کے عطیہ کو یا اس کی اور کسی حقیقی یادگار کو تاریخی طور پر اپنے پاس محفوظ رکھے تو کوئی گناہ نہیں ہے۔ اس حدیث سے آیت قرآنی لقد جاءکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم کی تفسیر بھی سمجھ میں آئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مسلمان کی ادنی تکلیف کو بھی دیکھنا گوارا نہیں فرماتے تھے۔ آپ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو جب دیکھا کہ وہ اس سست اونٹ کی وجہ سے تکلیف محسوس کر رہے ہیں تو آپ کو خود اس کا احساس ہوا۔ اور آپ نے اللہ کا نام لے کر اونٹ پر جو چھڑی ماری اس سے وہ اونٹ تیز رفتار ہو گیا اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی مزید دل جوئی کے لیے آپ نے اسے خرید بھی لیا۔ اور مدینہ تک اس پر سواری کی اجازت بھی مرحمت فرمائی۔ آپ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے شادی کی بابت بی گفتگو فرمائی۔ معلوم ہوا کہ اس قسم کی گفتگو معیوب نہیں ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی معلوم ہوا کہ تعلیم و تربیت محمدی نے ان کے اخلاق کو کس قدر بلندی بخش دی تھی کہ محض بہنوں کی خدمت کی خاطر بیوہ عورت سے شادی کو ترجیح دی اور باکرہ کو پسند نہیں فرمایا جب کہ عام جوانوں کا رجحان طبع ایسا ہی ہوتا ہے۔ حدیث اور باب میں مطابقت اوپر بیان کی جاچکی ہے۔ مسلم شریف کتاب البیوع میں یہ حدیث مزید تفصیلات کے ساتھ موجود ہے جس پر علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں فیہ حدیث جابر و ہو حدیث مشہور احتج بہ احمد ومن وافقہ فی جواز بیع الدابۃ و یشترط البائع لنفسہ رکوبہا یعنی حدیث مذکور جابر کے ساتھ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے موافقین نے دلیل پکڑی ہے کہ جانور کا بیچنا اور بیچنے والے کا اس کی وقتی سواری کے لیے شرط کر لینا جائز ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ یہ جواز اس وقت ہے جب کہ مسافت قریب ہو۔ اور یہ حدیث اسی معنی پر محمول ہے۔ اسی حدیث جابر کے ذیل میں علامہ نووی دوسری جگہ فرماتے ہیں : و اعلم ان فی حدیث جابر ہذا فوائد کثیرۃ احداہا : ہذہ المعجزۃ الظاہرۃ لرسول صلی اللہ علیہ وسلم فی انبعاث جمل جابر و ا سراعہ بعد اعیائہ، الثانیۃ : جواز طلب البیع لمن لم یعرض سلعۃ للبیع، الثالثۃ : جواز المماکسۃ فی البیع، الرابعۃ : استحباب سوال الرجل الکبیر اصحابہ عن احوالہم و الا شارۃ علیہم بمصالحہم، الخامسۃ : استحباب نکاح البکر، السادسۃ : استحباب ملاعبۃ الزوجین السابعۃ فضیلۃ جابر فی ان ترک حظ نفسہ من نکاح البکر و اختار مصلحۃ اخوانہ بنکاح ثیب تقوم بمصالحہن، الثامنۃ : استحباب الابتداءبالمسجد و صلاۃ رکعتین فیہ عند القدوم من السفر التاسعۃ استحباب الدلالۃ علی الخیر المعاشرۃ استحباب ارجاع المیزان فیما یدفعہ الحادیۃ عشرۃ ان اجرۃ وزن الثمن علی البائع الثانیۃ عشرۃ التبرک بآثار الصالحین لقولہ لا تفارقہ زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الثالثۃ عشرۃ جواز تقدم بعض الجیش الراجعین باذن الامیر الرابعۃ عشرۃ جواز الوکالۃ فی اداءالحقوق و نحوہا و فیہ غیر ذلک مما سبق۔ واللہ اعلم ( نووی ) یعنی یہ حدیث بہت سے فوائد پر مشتمل ہے ایک تو اس میں ظاہری معجزہ نبوی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے فضل سے تھکے ہوئے اونٹ کو چست و چالاک بنا دیا۔ اور وہ خوب چلنے لگ گیا۔ دوسرا امر یہ بھی ثابت ہوا کہ کوئی شخص اپنا سامان نہ بیچنا چاہے تو بھی اس سے اسے بیچنے کے لیے کہا جاسکتا ہے، اور یہ کوئی عیب نہیں ہے ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ اونٹ بیچنا نہیں چاہتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کو یہ اونٹ بیچ دینے کے لیے فرمایا۔ تیسرے بیع میں شرط کرنے کا جواز بھی ثابت ہوا۔ چوتھے یہ استحباب ثابت ہوا کہ بڑا آدمی اپنے ساتھیوں سے ان کے خانگی احوال دریافت کرسکتا ہے اور حسب مقتضائے وقت ان کے فائدے کے لیے مشورہ بھی دے سکتا ہے۔ پانچویں کنواری عورت سے شادی کرنے کا استحباب ثابت ہوا۔ چھٹے میاں بیوی کا خوش طبعی کرنے کا جواز ثابت ہوا۔ ساتویں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی فضیلت بھی ثابت ہوئی کہ انہوں نے اپنی بہنوں کے فائدے کے لیے اپنی شادی کے لیے ایک بیوہ عورت کو پسند کیا۔ آٹھواں یہ امر بھی ثابت ہوا کہ سفر سے واپسی پر پہلے مسجد میں جانا اور دو رکعت شکرانہ کی ادا کرنا مستحب ہے۔ نواں امر یہ ثابت ہوا کہ نیک کام کرنے کے لیے رغبت دلانا بھی مستحب ہے۔ دسواں امر یہ ثابت ہوا کہ کسی حق کا ادا کرتے وقت ترازو کو جھکا کر زیادہ ( یابصورت نقد کچھ زیادہ ) دینا مستحب ہے۔ گیارہواں امر یہ ثابت ہوا کہ تولنے والے کی اجرت بیچنے والے کے سر ہے۔ بارہواں امر یہ ثابت ہوا کہ آثار صالحین کو تبرک کے طور پر محفوظ رکھنا جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امر کے مطابق زیادہ پایا ہوا سونا اپنے پاس عرصہ دراز تک محفوظ رکھا۔ تیرہواں امر یہ بھی ثابت ہوا بعض اسلامی لشکر کو مقدم رکھا جاسکتا ہے جو امیر کی اجازت سے مراجعت کرنے والے ہوں۔ چودہواں امر ادائے حقوق کے سلسلہ میں وکالت کرنے کا جواز ثابت ہوا اور بھی کئی امور ثابت ہوئے جو گزر چکے ہیں۔ آثار صالحین کو تبرک کے طور پر اپنے پاس محفوظ رکھنا، یہ نازک معاملہ ہے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ وہ حقیقتاً صحیح طور پر آثار صالحین ہوں، جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو یقینا معلوم تھا کہ یہ قیراط مجھ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود از راہ کرام فالتو دلایا ہے ایسا یقین کامل حاصل ہونا ضروری ہے ورنہ غیر ثابت شدہ اشیاءکو صالحین کی طرف منسوب کرکے ان کو بطور تبرک رکھنا یہ کذب اور افتراءبھی بن سکتا ہے۔ اکثر مقامات پر دیکھا گیا ہے کہ لوگوں نے کچھ بال محفوظ کرکے ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیا ہے۔ پھر ان سے تبرک حاصل کرنا شرک کی حدود میں داخل ہو گیا ہے۔ ایسی مشکوک چیزوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا بڑی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ حقیقت کے خلاف ہیں تو یہ منسوب کرنے والے زندہ دوزخی بن جاتے ہیں۔ کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا افترا کرنے والوں کو زندہ دوزخی بتلایا ہے بصورت دیگر اگر ایسی چیز تاریخ سے صحیح ثابت ہے تو اسے چومنا چاٹنا، اس کے سامنے سر جھکانا، اس پر نذر و نیاز چڑھانا اس کی تعظیم میں حد اعتدال سے آگے گزر جانا یہ جملہ امور ایک مسلمان کو شرک جیسے قبیح گناہ میں داخل کردیتے ہیں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بلاشبہ اس کو ایک تاریخی یادگار کے طور پر اپنے پاس رکھا۔ مگر یہ ثابت نہیں کہ اس کو چوما چاٹا ہو، اسے نذ ر نیاز کا حق دار گردانا ہو۔ اس پر پھول ڈالے ہوں یا اس کو وسیلہ بنایا ہو۔ ان میں سے کوئی بھی امر ہرگز ہرگز حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے پس اس بارے میں بہت سوچ سمجھ کی ضرورت ہے۔ شرک ایک بدترین گناہ ہے اور باریک بھی اس قدر کہ کتنے ہی دینداری کا دعوی کرنے والے امور شرک کے مرتکب ہو کر عند اللہ دوزخ میں خلود کے مستحق بن جاتے ہیں۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو ہر قسم کے شرک خفی و جلی، صغیر و کبیر سے محفوظ رکھے، آمین۔ ثم آمین