كِتَابُ الوَكَالَةِ بَابُ إِذَا وَهَبَ شَيْئًا لِوَكِيلٍ أَوْ شَفِيعِ قَوْمٍ جَازَ صحيح حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ قَالَ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ وَزَعَمَ عُرْوَةُ أَنَّ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَاهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ حِينَ جَاءَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ مُسْلِمِينَ فَسَأَلُوهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَسَبْيَهُمْ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ الْحَدِيثِ إِلَيَّ أَصْدَقُهُ فَاخْتَارُوا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ إِمَّا السَّبْيَ وَإِمَّا الْمَالَ وَقَدْ كُنْتُ اسْتَأْنَيْتُ بِهِمْ وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْتَظَرَهُمْ بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً حِينَ قَفَلَ مِنْ الطَّائِفِ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ رَادٍّ إِلَيْهِمْ إِلَّا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ قَالُوا فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْيَنَا فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمُسْلِمِينَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ إِخْوَانَكُمْ هَؤُلَاءِ قَدْ جَاءُونَا تَائِبِينَ وَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُطَيِّبَ بِذَلِكَ فَلْيَفْعَلْ وَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَكُونَ عَلَى حَظِّهِ حَتَّى نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيءُ اللَّهُ عَلَيْنَا فَلْيَفْعَلْ فَقَالَ النَّاسُ قَدْ طَيَّبْنَا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّا لَا نَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ فِي ذَلِكَ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ فَارْجِعُوا حَتَّى يَرْفَعُوا إِلَيْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ فَرَجَعَ النَّاسُ فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ أَنَّهُمْ قَدْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا
کتاب: وکالت کے مسائل کا بیان
باب : اگر کوئی چیز کسی قوم کے وکیل یا سفارشی کو ہبہ کی جائے تو درست ہے
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہ عروہ یقین کے ساتھ بیان کرتے تھے اور انہیں مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ( غزوہ¿ حنین کے بعد ) جب قبیلہ ہوازن کا وفد مسلمان ہو کر حاضر ہوا تو انہوں نے درخواست کی کہ ان کے مال و دولت اور ان کے قیدی انہیں واپس کر دیئے جائیں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے زیادہ سچی بات مجھے سب سے زیادہ پیاری ہے۔ تمہیں اپنے دو مطالبوں میں سے صرف کسی ایک کو اختیار کرنا ہوگا، یا قیدی واپس لے لو، یا مال لے لو، میں اس پر غور کرنے کی وفد کو مہلت بھی دیتا ہوں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف سے واپسی کے بعد ان کا ( جعرانہ میں ) تقریباً دس رات تک انتظا رکیا۔ پھر جب قبیلہ ہوازن کے وکیلوں پر یہ بات واضح ہو گئی کہ آپ ان کے مطالبہ کا صرف ایک ہی حصہ تسلیم کرسکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہم صرف اپنے ان لوگوں کو واپس لینا چاہتے ہیں جو آپ کی قید میں ہیں۔ اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو خطاب فرمایا۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا، اما بعد ! یہ تمہارے بھائی توبہ کرکے مسلمان ہو کر تمہارے پاس آئے ہیں۔ اس لیے میں نے مناسب جانا کہ ان کے قیدیوں کو واپس کر دوں۔ اب جو شخص اپنی خوشی سے ایسا کرنا چاہے تو اسے کر گزرے۔ اور جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کا حصہ باقی رہے اور ہم اس کے اس حصہ کو ( قیمت کی شکل میں ) اس وقت واپس کردیں جب اللہ تعالیٰ ( آج کے بعد ) سب سے پہلا مال غنیمت کہیں سے دلا دے تو اسے بھی کر گزرنا چاہئے۔ یہ سن کر سب لوگ بولے پڑے کہ ہم بخوشی رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کی خاطر ان کے قیدیوں کو چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح ہم اس کی تمیز نہیں کرسکتے کہ تم میں سے کسی نے اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی ہے۔ اس لیے تم سب ( اپنے اپنے ڈیروں میں ) واپس جاؤ اور وہاں سے تمہارے وکیل تمہارا فیصلہ ہمارے پاس لائیں۔ چنانچہ سب لوگ واپس چلے گئے۔ اور ان کے سرداروں نے ( جو ان کے نمائندے تھے ) اس صورت حال پر بات کی پھر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو بتایا کہ سب نے بخوشی دل سے اجازت دے دی ہے۔
تشریح :
غزوہ حنین فتح مکہ کے بعد8ھ میں واقع ہوا۔ قرآن مجید میں اس کا ان لفظوں میں ذکر ہے۔ و یوم حنین اذا اعجبتکم کثرتکم فلم تغن عنکم شیئا و ضاقت علیکم الارض بما رحبت ثم ولیتم مدبرین ثم انزل اللہ سکینتہ علی رسولہ الی آخر الایات ( التوبۃ : 25-26 )
یعنی حنین کے دن بھی ہم نے تمہاری مدد کی، جب تمہاری کثرت نے تم کو گھمنڈ میں ڈال دیا تھا۔ تمہارا گھمنڈ تمہارے کچھ کام نہ آیا۔ اور زمین کشادہ ہونے کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی۔ اور تم منہ پھیر کر بھاگنے لگے۔ مگر اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر اپنی طرف سے تسکین نازل کی اور ایمان والوں پر بھی، اور ایسا لشکر نازل کیا جسے تم نہیں دیکھ رہے تھے اور کافروں کو اللہ نے عذاب کیا اور کافروں کا یہی بدلہ مناسب ہے۔
ہوا یہ تھا کہ فتح مکہ کے بعد مسلمانوں کو یہ خیال ہوگیا تھا کہ عرب میں ہر طرف اسلامی پرچم لہرا رہا ہے اب کون ہے، جو ہمارے مقابلے پر آسکے، ان کا یہ غرور اللہ کو ناپسند آیا۔ ادھر حنین کے بہادر لوگ جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اسلام کے مقابلہ پر آگئے۔ اور میدان جنگ میں انہوں نے بے تحاشا تیر برسانے شروع کئے تو مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے اور وہ بڑی تعداد میں راہ فرار اختیار کرنے لگے۔ حتی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ ارشاد ہوا انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب میں اللہ کا سچا نبی ہوں جس میں مطلق جھوٹ نہیں ہے۔ اور میں عبدالمطلب جیسے نامور بہادر قریش کا بیٹا ہوا۔ پس میدان چھوڑنا میرا کام نہیں ہے۔
ادھر بھاگنے والے صحابہ کو جو آواز دی گئی تو وہ ہوش میں آئے۔ اور اس طرح جوش و خروش کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہونے کو واپس لوٹے کہ میدان جنگ کا نقشہ پلٹ گیا اور مسلمان بڑی شان کے ساتھ کامیاب ہوئے اور ساتھ میں کافی تعداد میں لونڈی، غلام اور مال حاصل کرکے لائے۔ بعد میں لڑنے والوں میں سے قبیلہ ہوازن نے اسلام قبول کر لیا اور یہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں اپنے اموال اور لونڈی غلام حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوئے۔ اور طائف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں شرف باریابی حاصل کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ہر دو مطالبات میں سے ایک پر غور کیا جاسکتا ہے یا تو اپنے آدمی واپس لے لویا اپنے اموال حاصل کرلو۔ آپ نے ان کو جواب کے لیے مہلت دی۔ اور آپ دس روز تک جعرانہ میں ان کا انتظار کرتے رہے یہی جعرانہ نامی مقام ہے جہاں سے آپ اسی اثناءمیں احرام باندھ کر عمرہ کے لیے مکہ تشریف لائے تھے۔ جعرانہ حد حرم سے باہر ہے۔
اس دفعہ کے حج 1389ھ میں اس حدیث پر پہنچا تو خیال ہوا کہ ایک دفعہ جعرانہ جاکر دیکھنا چاہئے۔ چنانچہ جانا ہوا۔ اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ شریف واپسی ہوئی اور عمرہ کرکے احرام کھول دیا۔ یہاں اس مقام پر اب عظیم الشان مسجد بنی ہوئی ہے اور پانی وغیرہ کا معقول انتظام ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مطالبہ کے سلسلہ میں اپنے حصہ کے قیدی واپس کر دئیے۔ اور دوسرے جملہ مسلمانوں سے بھی واپس کرا دئیے۔ اسلام کی یہی شان ہے کہ وہ ہر حال میںا نسان پروری کو مقدم رکھتا ہے۔ آپ نے یہ معاملہ قوم کے وکلاءکے ذریعہ طے کرایا۔ اسی سے مجتہد مطلق حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد باب ثابت ہوا اور یہ بھی کہ اجتماعی قومی معاملات کو حل کرنے کے لیے قوم کے نمائندگان کا ہونا ضروری ہے۔ آج کل کی اصطلاح میں ان کو چودھری پنچ ممبر کہا جاتاہے۔ قدیم زمانے سے دنیا کی ہر قوم میںایسے اجتماعی نظام چلے آرہے ہیں کہ ان کے چودھری پنچ جو بھی فیصلہ کردیں وہی قومی فیصلہ مانا جاتا ہے۔ اسلام ایسی اجتماعی تنظیموں کا حامی ہے بشرطیکہ معاملات حق و انصاف کے ساتھ حل کئے جائیں۔
غزوہ حنین فتح مکہ کے بعد8ھ میں واقع ہوا۔ قرآن مجید میں اس کا ان لفظوں میں ذکر ہے۔ و یوم حنین اذا اعجبتکم کثرتکم فلم تغن عنکم شیئا و ضاقت علیکم الارض بما رحبت ثم ولیتم مدبرین ثم انزل اللہ سکینتہ علی رسولہ الی آخر الایات ( التوبۃ : 25-26 )
یعنی حنین کے دن بھی ہم نے تمہاری مدد کی، جب تمہاری کثرت نے تم کو گھمنڈ میں ڈال دیا تھا۔ تمہارا گھمنڈ تمہارے کچھ کام نہ آیا۔ اور زمین کشادہ ہونے کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی۔ اور تم منہ پھیر کر بھاگنے لگے۔ مگر اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر اپنی طرف سے تسکین نازل کی اور ایمان والوں پر بھی، اور ایسا لشکر نازل کیا جسے تم نہیں دیکھ رہے تھے اور کافروں کو اللہ نے عذاب کیا اور کافروں کا یہی بدلہ مناسب ہے۔
ہوا یہ تھا کہ فتح مکہ کے بعد مسلمانوں کو یہ خیال ہوگیا تھا کہ عرب میں ہر طرف اسلامی پرچم لہرا رہا ہے اب کون ہے، جو ہمارے مقابلے پر آسکے، ان کا یہ غرور اللہ کو ناپسند آیا۔ ادھر حنین کے بہادر لوگ جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اسلام کے مقابلہ پر آگئے۔ اور میدان جنگ میں انہوں نے بے تحاشا تیر برسانے شروع کئے تو مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے اور وہ بڑی تعداد میں راہ فرار اختیار کرنے لگے۔ حتی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ ارشاد ہوا انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب میں اللہ کا سچا نبی ہوں جس میں مطلق جھوٹ نہیں ہے۔ اور میں عبدالمطلب جیسے نامور بہادر قریش کا بیٹا ہوا۔ پس میدان چھوڑنا میرا کام نہیں ہے۔
ادھر بھاگنے والے صحابہ کو جو آواز دی گئی تو وہ ہوش میں آئے۔ اور اس طرح جوش و خروش کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہونے کو واپس لوٹے کہ میدان جنگ کا نقشہ پلٹ گیا اور مسلمان بڑی شان کے ساتھ کامیاب ہوئے اور ساتھ میں کافی تعداد میں لونڈی، غلام اور مال حاصل کرکے لائے۔ بعد میں لڑنے والوں میں سے قبیلہ ہوازن نے اسلام قبول کر لیا اور یہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں اپنے اموال اور لونڈی غلام حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوئے۔ اور طائف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں شرف باریابی حاصل کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ہر دو مطالبات میں سے ایک پر غور کیا جاسکتا ہے یا تو اپنے آدمی واپس لے لویا اپنے اموال حاصل کرلو۔ آپ نے ان کو جواب کے لیے مہلت دی۔ اور آپ دس روز تک جعرانہ میں ان کا انتظار کرتے رہے یہی جعرانہ نامی مقام ہے جہاں سے آپ اسی اثناءمیں احرام باندھ کر عمرہ کے لیے مکہ تشریف لائے تھے۔ جعرانہ حد حرم سے باہر ہے۔
اس دفعہ کے حج 1389ھ میں اس حدیث پر پہنچا تو خیال ہوا کہ ایک دفعہ جعرانہ جاکر دیکھنا چاہئے۔ چنانچہ جانا ہوا۔ اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ شریف واپسی ہوئی اور عمرہ کرکے احرام کھول دیا۔ یہاں اس مقام پر اب عظیم الشان مسجد بنی ہوئی ہے اور پانی وغیرہ کا معقول انتظام ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مطالبہ کے سلسلہ میں اپنے حصہ کے قیدی واپس کر دئیے۔ اور دوسرے جملہ مسلمانوں سے بھی واپس کرا دئیے۔ اسلام کی یہی شان ہے کہ وہ ہر حال میںا نسان پروری کو مقدم رکھتا ہے۔ آپ نے یہ معاملہ قوم کے وکلاءکے ذریعہ طے کرایا۔ اسی سے مجتہد مطلق حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد باب ثابت ہوا اور یہ بھی کہ اجتماعی قومی معاملات کو حل کرنے کے لیے قوم کے نمائندگان کا ہونا ضروری ہے۔ آج کل کی اصطلاح میں ان کو چودھری پنچ ممبر کہا جاتاہے۔ قدیم زمانے سے دنیا کی ہر قوم میںایسے اجتماعی نظام چلے آرہے ہیں کہ ان کے چودھری پنچ جو بھی فیصلہ کردیں وہی قومی فیصلہ مانا جاتا ہے۔ اسلام ایسی اجتماعی تنظیموں کا حامی ہے بشرطیکہ معاملات حق و انصاف کے ساتھ حل کئے جائیں۔