كِتَابُ الوَكَالَةِ بَابُ الوَكَالَةِ فِي قَضَاءِ الدُّيُونِ صحيح حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَقَاضَاهُ فَأَغْلَظَ فَهَمَّ بِهِ أَصْحَابُهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعُوهُ فَإِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا ثُمَّ قَالَ أَعْطُوهُ سِنًّا مِثْلَ سِنِّهِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِلَّا أَمْثَلَ مِنْ سِنِّهِ فَقَالَ أَعْطُوهُ فَإِنَّ مِنْ خَيْرِكُمْ أَحْسَنَكُمْ قَضَاءً
کتاب: وکالت کے مسائل کا بیان
باب : قرض ادا کرنے کے لیے کسی کو وکیل کرنا
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن کہیل نے بیان کیا، انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے سنا اور انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ( اپنے قرض کا ) تقاضا کرنے آیا، اور سخت سست کہنے لگا۔ صحابہ کرام غصہ ہو کر اس کی طرف بڑھے لیکن آپ نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو۔ کیوں کہ جس کا کسی پر حق ہو تو وہ کہنے سننے کا بھی حق رکھتا ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اس کے قرض والے جانور کی عمر کا ایک جانور اسے دے دو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس سے زیادہ عمر کا جانور تو موجود ہے۔ ( لیکن اس عمر کا نہیں ) آپ نے فرمایا کہ اسے وہی دے دو۔ کیوں کہ سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو دوسروں کا حق پوری طرح ادا کردے۔
تشریح :
یہیں سے باب کا مطلب نکلتا ہے کیوں کہ آپ نے جو حاضر تھے دوسروں کو اونٹ دینے کے لیے وکیل کیا۔ اور جب حاضر کو وکیل کرنا جائز ہوا حالانکہ وہ خود کام کرسکتا ہے تو غائب کو بطریق اولیٰ وکیل کرنا جائز ہوگا۔ حافظ ابن حجر نے ایسا ہی فرمایا ہے اور علامہ عینی پر تعجب ہے کہ انہوں نے ناحق حافظ صاحب پر اعتراض جمایا کہ حدیث سے غائب کی وکالت نہیں نکلتی، اولیت کا تو کیا ذکر ہے، حالانکہ اولیت کی وجہ خود حافظ صاحب کے کلام میں مذکور ہے۔ حافظ صاحب نے انتقاض الاعتراض میں کہا جس شخص کے فہم کا یہ حال ہو اس کو اعتراض کرنا کیا زیب دیتا ہے۔ نعوذ باللّٰہ من التعصب و سوءالفہم۔ ( وحیدی )
اس حدیث سے اخلاق محمدی پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ قرض خواہ کی سخت گوئی کا مطلق اثر نہیں لیا، بلکہ وقت سے پہلے ہی اس کا قرض احسن طور پر ادا کرادیا۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو یہ اخلاق حسنہ عطا کرے۔ آمین
یہیں سے باب کا مطلب نکلتا ہے کیوں کہ آپ نے جو حاضر تھے دوسروں کو اونٹ دینے کے لیے وکیل کیا۔ اور جب حاضر کو وکیل کرنا جائز ہوا حالانکہ وہ خود کام کرسکتا ہے تو غائب کو بطریق اولیٰ وکیل کرنا جائز ہوگا۔ حافظ ابن حجر نے ایسا ہی فرمایا ہے اور علامہ عینی پر تعجب ہے کہ انہوں نے ناحق حافظ صاحب پر اعتراض جمایا کہ حدیث سے غائب کی وکالت نہیں نکلتی، اولیت کا تو کیا ذکر ہے، حالانکہ اولیت کی وجہ خود حافظ صاحب کے کلام میں مذکور ہے۔ حافظ صاحب نے انتقاض الاعتراض میں کہا جس شخص کے فہم کا یہ حال ہو اس کو اعتراض کرنا کیا زیب دیتا ہے۔ نعوذ باللّٰہ من التعصب و سوءالفہم۔ ( وحیدی )
اس حدیث سے اخلاق محمدی پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ قرض خواہ کی سخت گوئی کا مطلق اثر نہیں لیا، بلکہ وقت سے پہلے ہی اس کا قرض احسن طور پر ادا کرادیا۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو یہ اخلاق حسنہ عطا کرے۔ آمین